کولکاتا:پولیس نے عدالت کو بتایا کہ جسٹس منتھا کے خلاف پوسٹر لگانے والوں کا پتہ لگانے کے لئے لگ بھگ 250 پرنٹنگ ہاؤسز کی جانچ کی گئی ہے۔ اس میں سے 39 پرنٹنگ پریسوں کی پولیس نے تلاشی لی۔ پرنٹنگ انتظامیہ سے پوچھ گچھ کی گئی ہے۔ لیکن یہ پوسٹر کہاں سے چھاپے گئے، یہ ابھی تک معلوم نہیں ہوسکا ہے۔ پولیس نے جھیل تھانہ علاقے میں جج کے گھر کے سامنے لگے سی سی ٹی وی کیمرے کی فوٹیج کا بھی جائزہ لیا ہے۔
پولیس نے یہ بھی کہا کہ پوسٹروں کے کاغذی نمونوں کی جانچ کے لیے سینٹرل فرانزک لیبارٹری کی مدد لی گئی ہے۔ ساتھ ہی سی سی ٹی وی فوٹیج کی بھی جانچ کی جا رہی ہے۔ جج کے خلاف پوسٹر بنانے اور دیوار پر لگانے کے معاملے میں ابتدائی طور پر 6 افراد پولیس ملزمان کی فہرست میں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ مزید 89 لوگوں سے پوچھ گچھ کی گئی ہے۔ کلکتہ پولیس نے مرکزی ملزم کو پکڑنے کے لیے عدالت سے کچھ اور وقت مانگا ہے۔ تاہم عدالت نے پولیس کمشنر کی اس رپورٹ پر ناراضگی ظاہر کی ہے۔ ہائی کورٹ کے لارجر بنچ نے اس بات پر برہمی کا اظہار کیا کہ ایک ماہ گزرنے کے باوجود مجرموں کی شناخت کیوں نہیں ہو سکی۔
ہائی کورٹ کے رجسٹرار جنرل نے بدھ کو پین ڈرائیو کے ذریعے جسٹس منتھر کے کمرہ عدالت کے باہر وکلاء کے احتجاج کی فوٹیج لارجر بنچ کو پیش کی۔ فوٹیج کا جائزہ لینے کے بعد تینوں ججوں نے اسٹیٹ بار کونسل، بار ایسوسی ایشن اور انکارپوریٹڈ لاء سوسائٹی کو ہدایت دی کہ وہ ملزم کی شناخت کریں۔ اس تناظر میں بار ایسوسی ایشن کے صدر ارونابھ گھوش نے کہا کہ اس فوٹیج کو دیکھ کر ملزم کی شناخت ممکن نہیں ہے۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ اس واقعہ کے پیچھے کوئی سیاسی مقصد ہے۔ جس کے جواب میں جسٹس ڈیش نے تبصرہ کیاکہ ”سب سے پہلے آپ وکیل ہیں۔ یہاں سیاست کہاں سے آرہی ہے؟ سیاست مت کرو۔''
یہ تنازعہ گزشتہ ماہ کے اوائل میں شروع ہوا تھا۔ وکلاء کے ایک گروپ نے جسٹس راج شیکھر منتھا کے خلاف عدالت کے احاطے میں احتجاج کیا۔ اس کے بعد ہائی کورٹ کے احاطے میں جج کے نام کے کچھ پوسٹر لگ گئے۔ اس پر سرخ کاغذ پر جج کی تصویر کے ساتھ لکھا تھا کہ، 'یہ انصاف کے نام پر بے عزتی ہے'، یہاں تک کہ جج کے چہرے پر بڑے حروف میں 'شرم' لکھا ہوا تھا۔ بعد میں جھیل تھانہ علاقے میں جج کے گھر کے سامنے یہی پوسٹر نظر آیا۔ ہائی کورٹ میں کیس دائر کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں:Calcutta High Court سبکدوش اساتذہ کو واجبات ملنے میں تاخیر سے عدالت ناراض
ہائی کورٹ کے وکلاء کے ایک حصے نے عدالت کے احاطے میں ہنگامہ آرائی کے بعد جسٹس منتھر اجلاس یعنی کورٹ نمبر 13 کا بائیکاٹ کیا۔ وہ اس عدالت میں نہیں جارہے ہیں۔ نتیجتاً بہت سے انصاف کے خواہشمندوں کو دور دراز سے واپس آنا پڑتا ہے۔ لارجر بنچ کے ججز نے افسوس کا اظہار کیا۔جسٹس شیوگنم نے کہا کہ ہم عدالت نمبر 13 کے بارے میں فکر مند ہیں۔ سرکاری وکلاء وہاں نہیں جا رہے۔ دور دراز علاقوں سے لوگ آرہے ہیں۔ یہ جاری نہیں رہ سکتا ہے۔ اس کیس کی اگلی سماعت 17 مارچ کو ہوگی۔