ریلی کی قیادت کرتے ہوئے سابق آئی اے ایس افسرہرش مندر نے کہا کہ وزیرا عظم نریندر موددی اور امیت شاہ دراصل گاندھی جی کا دیش نہیں بلکہ آر ایس ایس اور ہندو مہاسبھا کے خوابوں کا بھارت بنانے کیلئے کوشش کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ شہریت ترمیمی ایکٹ اور این آر سی کے نفاذ کے پیچھے بھی یہی منشا ہے۔مگرانہیں یہ اندازہ نہیں تھا ان کے اقدام کے خلاف پورے ملک میں اتنے بڑے پیمانے پر احتجاج ہوگا۔
ہرش مندر نے کہاکہ یہ جدو جہد کسی بھی درجے میں تحریک آزادی سے کم نہیں ہے۔بلکہ یہ تحرک آزادی کا ہی تسلسل ہے انہوں نے کہا کہ ہمیں ہندوستان کو محبت اور پیار کا ملک بنانا ہے اور یہ دلوں کے ذریعہ ہی رشتہ قائم ہوگا۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ کی طالبہ عائشہ رینا جوجامعہ یونیورسٹی کے طلبا ء پر پولس کے کریکٹ ڈاؤن کے وقت مشہور ہوئی ہیں نے کہا کہ حکومت وقت طلباء تحریک سے خوف زدہ ہوگئی ہے۔
نوجوانوں نے ملک بھر میں حکومت کی چولیں ہلادی ہیں اور ضرورت اس بات کی ہے کہ اس تحریک کو گاؤں کی سطح تک پہنچایا جائے۔انہوں نے کہا کہ خوف اور مایوسیوں کا ماحول پیدا کردیا گیا ہے جس سے نکلنے کی ضرورت ہے۔اس کے علاوہ اسلافوپیا اور مسلم فوپیا بھی کھڑا کیا جارہا ہے جس کو ختم کرنے کیلئے ہمیں بھی کوشش کرنی چاہیے۔
سپریم کور ٹ کے سابق جسٹس اشوک گنگولی نے شہریت ترمیمی ایکٹ اور این آر سی کو ہندوستان کے آئین کے روح منافی قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومت ہندوستان کے آئین کے بنیادی ڈھانچے کو منہدم کرنے کی کوشش کررہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہماری لڑائی صرف سی اے اے اور این آرسی تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ دستور کو بچانے کی لڑائی ہے اور ہم اس کیلئے پابند عہد ہیں۔یہ لڑائی صرف ایک طبقے تک محدود نہیں ہے۔انہوں نے فاششٹ قوتوں کا کوئی مذہب نہیں ہے وہ ہرایک پر حملہ کرتا جو اس کے خلاف ہوتا ہے۔
مشہور سماجی کارکن ندیم احمد نے غیر بی جے پی ریاستوں کے حکمراں جماعتوں سے اپیل کی ہے این آر سی اور این آر پی کے خلاف اسمبلی ریزولیشن پاس کرے کہ وہ اپنی ریاستوں میں این آر پی کو نافذ نہیں کریں گے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ عہد کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم این آر پی میں بھی کاغذ نہیں دکھائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ این آر پی کو جس طریقے سے نافذ کیا جارہا ہے وہ این آر سی سے زیادہ خطرناک ہے بلکہ این آر پی کی آڑ میں لاکھوں ہندوستانیوں کو مشکوک قرار دیا جائے گا اس لیے اس پر کاغذ دکھانے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔
سابق ممبر پارلیمنٹ عبید اللہ خان اعظمی، سماجی کارکن حاجی عبد العزیز، امام عیدین قاری فضل الرحمن و دیگر افراد نے بھی اس موقع پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔