انہوں نے کہا کہ بی جے پی کے حمایتی گودی میڈیا شوبھندو ادھیکاری کو بنگال کی تاریخ کا سب سے بڑا اور کامیاب رہنما کے طور پر پیش کر رہا ہے، لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ شوبھندو ادھیکاری ویسا بالکل ہی نہیں ہے جس طرح سے میڈیا انہیں پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ شوبھندو ادھیکاری اگر کامیاب اور ذہین رہنما ہوتے تو بہت پہلے ہی ترنمول کانگریس چھوڑ چکے ہوتے۔
انہوں نے کہا کہ یہ کیسا سیاسی رہنما ہے جسے دس برس بعد پتہ چلتا ہے کہ ان کی پارٹی میں رنگداری وصولی کرنے والے چند لوگ ہیں۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ شوبھندو ادھیکاری گزشتہ دس برسوں سے اسی رنگدار جماعت کے ساتھ ایک جگہ بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے، ایک ساتھ اسٹیج شئیر کرتے تھے۔لیکن اچانک ایسا کیا ہوا کہ پارٹی چھوڑنے کی نوعیت تک بات پہنچ گئی۔بنگال کی عوام کو سب کچھ پتہ ہے کون کیا کر رہا ہے۔
بمان بوس نے کہا کہ شوبھندو ادھیکاری عوام کو بیوقوف بنانے کی کوشش کر رہے ہیں یا پھر پارٹی بدل کر خود بے وقوف بن گئے۔ آنے والی دنوں میں اس کا خلاصہ ہو جائے گا۔بائیں محاذ کے چئیرمین کا کہنا ہے کہ امید تھی کہ بی جے پی میں شامل ہونے کے بعد شوبھندو ادھیکاری کی پہلی تقریر دھماکہ خیز ہو گی لیکن انہوں نے مایوس کیا۔
انہوں نے کہا کہ بی جے پی کے رہنما نے اپنی پوری تقریر میں خود کو معصوم اور دوسروں کو قصوروار بتانے کی کوشش کی، سیاست میں یہ سب نہیں چلتا ہے۔مغربی بنگال کے عوام بی جے پی کے خلاف سڑکوں پر اتر آئے گے تو اس وقت دل بدلنے والوں کو سمجھ آئے گا انہوں نے کتنی بڑی غلطی کر دی ہے۔