عالیہ یونیورسٹی کے سابق طالب علم اور سی اے اے این آر سی مخالف تحریک میں سرگرم رہنے والے انیس خان کے بہمیانہ قتل کے خلاف پوری ریاست میں احتجاج و مظاہرے ہو رہے ہیں۔ انیس خان کے گاؤں شاردا دکھن خان پاڑا میں غم و غصے کی لہر ہے۔ قتل کے ایک روز بعد گاؤں پہنچی فورینسک ٹیم اور پولیس کو گاؤں والوں کی ناراضگی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ انیس خان کے والد نے اس معاملے کی سی بی آئی جانچ کا مطالبہ کیا ہے۔ اگرچہ ریاستی حکومت نے اعلی سطحی جانچ کا اعلان کیا ہے، لیکن مقتول انیس خان کے والد سالم خان خان کا کہنا ہے کہ ان کو ریاستی پولیس پر بھروسہ نہیں ہے۔ Anis Khan Father Demands CBI Inquiry
عالیہ یونیورسٹی میں ایم بی اے کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ کلیانی یونیورسٹی سے جرنلزم کی پڑھائی کر رہا تھا۔ لیکن گذشتہ 18 فروری کی رات چار افراد پولیس کی وردی میں دیر رات اس کے گھر آئے اور اس کا بہیمانہ طور پر قتل کرکے فرار ہو گئے۔
خبروں کے مطابق انیس خان کی گذشتہ کئی ماہ سے پیر زادہ عباس صدیقی کی سیاسی جماعت 'انڈین سیکولر فرنٹ' سے رابطے بڑھ گئے تھے وہ انڈین سیکولر فرنٹ میں شامل بھی ہو چکا تھا۔ جس کی وجہ سے اپنے علاقے میں برسر اقتدار جماعت کی نظروں میں کھٹکنے لگا تھا۔ جمعہ کی شام پیر زادہ نوشاد صدیقی کا ایک جلسہ منعقد کیا گیا تھا۔ وہاں سے گھر واپس آنے کے کچھ دیر بعد یہ سب کچھ ہوا ہے۔'
ای ٹی وی بھارت نے انیس خان کے گاؤں ہوڑہ ضلع کے آمتہ کے شاردا دکھن خان پاڑہ پہنچ کر مقتول انیس خان کے والد سے اس پورے واقعے کے متعلق سچائی جاننے کی کوشش کی۔
انہوں نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ' جمعہ کے روز 18 فروری کو فرفرا شریف کے پیرزادہ کا ہمارے گاؤں میں جلسہ تھا۔ رات 12 بجے کے بعد انیس خان وہاں سے لوٹا تھا اور گھر کے چھت پر تھا اسی وقت چار افراد جو پولیس کی وردی میں تھے پہنچے اور مجھے بلایا اور کہاکہ انیس کہاں ہے میں نے کہاکہ وہ گھر پر نہیں ہے کیوں مجھے معلوم نہیں تھاکہ وہ گھر پر ہے، لیکن ان لوگوں نے اسرار کیا کہ وہ ابھی گھر آیا ہے۔ اس کے بعد پولیس انسپکٹر کی وردی میں ملبوس شخص نے مجھے پر بندوق تان دی اور پولیس کے ملبوس میں آئے افراد اس کے کمرے میں چلے گئے اور انیس کو چھت پر لے گئے اس کو زدو کوب کیا اور پھر دس منٹ کے درمیان ہی چھت پر سے نیچے پھینک دیا'۔
گھر کے دروازے کے پاس ہی انیس زمین پر پڑا ہوا تھا، اس کے بعد تینوں افراد نیچے آئے اور پولیس انسپکٹر کے وردی والے شخص جس نے مجھ پر بندوق تان رکھی تھی کہاکہ سر کام ہو گیا ہے اور وہ فرار ہو گئے'۔
ہم لوگ نے انیس کو دیکھا کہ اس کی موت ہو چکی ہے، پھر بھی تسلی کے لیے اس کو الوبیڑیا کے ایک نرسنگ ہوم لے گئے۔ آمتہ پولیس تھانہ کو 3بجے شب فون کیا گیا لیکن پولیس صبح دس بجے آئی اور لاش لے جانے کی کوشش کی، لیکن ہم نے کہاکہ میڈیا کے آنے بعد ہی لاش پوسٹ مارٹم کے لیے لے جانے دیں گے۔ میڈیا کے آنے کے بعد پولیس لاش کو لے گئی اور ہم لوگوں کو اطلاع کیے بغیر ہی پوشٹ مارٹم کر دیا گیا۔'
انہوں نے مزید کہاکہ ہمیں ریاستی پولس پر بھروسہ نہیں ہے ان کی جانچ میں میرے بیٹے کو انصاف نہیں ملے گا۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ اس کی سی بی آئی جانچ ہو اور جو لوگ قاتل ہیں ان کو سخت سزا ملنی چاہیے۔ انہوں مزید کہاکہ میرے بیٹے میں اپنے گاؤں کے لوگوں قوم و ملت کے لیے کچھ کرنے کا حوصلہ تھا وہ حق کے لیے آواز اٹھانے میں کبھی بھی پیچھے نہیں رہتا تھا۔ گاؤں کے لوگوں کے کام آتا تھا۔'
انیس خان کے اہل خانہ سے تعزیت کرنے پہنچے کولکاتا سے مسلم مجلس مشاورت کے وفد نے انیس خان کے بہیمانہ قتل کی مذمت کرتے ہوئے سی بی آئی جانچ کا مطالبہ کیا۔ مجلس مشاورت کے جنرل سیکریٹری عبدالعزیز نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ سی آئی ڈی جانچ کی بات کہی جا رہی ہے، لیکن وہ بھی جو تفتیش ہورہی ہے وہ بھی تو پولیس کا ایک حصہ ہے، لہذا ہمیں ان پر بالکل بھی بھروسہ نہیں، ہم چاہتے ہیں کہ اس کی سی بی آئی جان کرائی جائے۔' Demand CBI Inquiry Over Anis Khan Murder Case
وہیں انیس خان قتل کے معاملے کی تحقیقات کرنے کے لیے پہنچی ایس آئی ٹی (SIT ) کی ٹیم کو مقامی باشندوں کی پر زور مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔
ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل (اے ڈی جی) گیان ونت سنگھ، ڈی آئی جی سی آئی ڈی معراج خالد اور بیرکپور جوائنٹ پولیس کمشنر دھروباجیوتی دے پر مشتمل ایس آئی ٹی کی ٹیم مقتول انیس خان قتل معاملے کی تحقیقات کے لیے پہنچی تو مقامی باشندوں نے احتجاج شروع کر دیا۔
ایس آئی ٹی کے سمجھانے کے بعد مقامی باشندوں نے احتجاج کا سلسلہ بند کیا، اس کے بعد ایس آئی ٹی نے کارروائی شروع کی۔
ذرائع کے مطابق ایس آئی ٹی نے جائے وقوع کا معائنہ کیا، چھت اور زمین کی درمیانی دوری کی پیمائش کی گئی۔ اس کے علاوہ آس پاس کے گھروں کا بھی دورہ کیا گیا۔
مزی پڑھیں: