اسد الدین اویسی کی جانب سے بنگال کے آئندہ انتخابات میں حصہ لینے کے اعلان کے بعد قیاس آرائیوں کا سلسلہ جاری ہے کہ ’آیا مغربی بنگال کی سیاست میں مجلس اتحاد المسلمین کی آمد سے بی جے پی کو فائدہ ہوگا جس طرح بہار میں ہوا‘۔
البتہ موجودہ صورتحال میں حالات کچھ حد تک بدل رہے ہیں۔ مغربی بنگال میں مجلس کے اعلیٰ رہنماؤں کی ترنمول کانگریس میں شمولیت کا سلسلہ جاری ہے جبکہ اس کا آغاز گذشتہ نومبر میں ہوا تھا۔
اسدالدین اویسی نے آئندہ اسمبلی انتخابات میں اپنے امیدوار کھڑے کرنے کا اعلان کیا تاہم بہت جلد وہ مغربی بنگال میں ایک اجلاس منعقد کرکے اپنی پارٹی کو مضبوط بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ صدر مجلس نے مسلم ووٹوں کو نظر میں رکھتے ہوئے بعض مسلم تنظیموں سے رابطہ قائم کرنا شروع کردیا ہے جس کے بعد ان خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے کہ آیا بہار کی طرح مغربی بنگال میں بھی مجلس مسلم ووٹوں کو تقسیم کرکے بی جے پی کو فائدہ پہنچائے گی؟
حکمراں جماعت میں مسلم چہرہ و ریاستی وزیر فرہاد حکیم نے کہا کہ ’وہ مجلس کو کوئی خاص اہمیت نہیں دینا چاہتے جس طرح اپوزیشن پارٹیاں بائیں محاذ اور کانگریس کو ریاست میں کوئی اہمیت حاصل نہیں ہے‘۔
رواں سال نومبر سے مجلس کے رہنماؤں کا ترنمول کانگریس میں شمولیت کا سلسلہ جاری ہے۔ 23 نومبر کو ریاست میں مجلس کے اعلیٰ رہنما انور شاہ ٹی ایم سی میں شامل ہوگئے اور گذشتہ جمعرات کو ایم آئی ایم کے ایک اہم نوجوان رہنما محمد صفی اللہ خان نے اپنے 30 ساتھیوں کے ہمراہ ترنمول کانگریس میں شمولیت اختیار کرلی، انہیں خود فرہاد حکیم نے پارٹی میں شامل کیا۔
محمد صفی اللہ خان نے بتایا کہ ’وہ بی جے پی کو ہر حال میں مغربی بنگال کے اقتدار سے دور رکھنا چاہتے ہیں جبکہ اس بات کو یقینی بنانے کےلیے وہ اقلیتی ووٹوں کو تقسیم ہونے سے بچانے کےلیے فکرمند ہیں‘۔ اس رجحان سے ٹی ایم سی کیمپ کو کچھ راحت پہنچی ہے اور توقع کی جارہی ہے کہ مجلس کے دیگر رہنما بھی بہت جلد ترنمول پرچم تلے جمع ہوجائیں گے۔
ترنمول کے ایک رہنما نے بتایا کہ ریاست کی مختلف اقلیتی تنظیمیں بھی بی جے پی کو اقتدار سے دور رکھنے کےلیے کوشاں ہیں اور ان کے مطابق صرف ترنمول کانگریس ہی بی جے پی کو روک سکتی ہے۔
البتہ اقلیتی رائے دہندوں پر مجلس کا کچھ اثر ہوسکتا ہے، ایسے میں ووٹوں کی تقسیم کا فائدہ بی جے پی کو ہوگا۔ بہار انتخابات کے نتائج دیکھنے کے بعد ریاست میں مختلف اقلیتی تنظیمیں بی جے پی کو فائدہ پہنچانے کے بالکل خلاف ہیں۔