نینی تال: اسلامی شریعت کے تحت 18 سال سے کم عمر کی لڑکیوں کی شادی کی اجازت کو غیر قانونی قرار دینے کے لیے دائر ایک PIL پر نینی تال ہائی کورٹ میں سماعت ہوئی۔ کیس کی سماعت کے بعد چیف جسٹس وپن سنگھی اور جسٹس منوج آلوک کمار ورما کی ڈویژن بنچ نے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کو فریق بنایا ہے۔ اس کے ساتھ ہی بورڈ کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 4 ہفتوں میں جواب داخل کرنے کو کہا ہے۔ اب کیس کی اگلی سماعت 25 اگست کو ہوگی۔
درخواست میں کیا ہے؟ دراصل، یوتھ بار ایسوسی ایشن آف انڈیا نے نینی تال ہائی کورٹ میں مفاد عامہ کی عرضی دائر کی ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ 18 سال سے کم عمر کی شادی کرنے کے باوجود کچھ عدالتیں نئے شادی شدہ جوڑے کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں پولیس تحفظ فراہم کرنے کا حکم دے رہی ہیں، کیونکہ مسلم پرسنل لا اس کی اجازت دیتا ہے۔ درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ 18 سال سے کم عمر کی شادی، نابالغ لڑکی سے جسمانی تعلقات اور کم عمری میں بچے پیدا کرنے سے بچی کی صحت اور پیدا ہونے والے بچے کی صحت متاثر ہوتی ہے۔
یہ مطالبہ کیا گیا ہے: درخواست گزار کا کہنا ہے کہ 18 سال سے کم عمر لڑکی سے شادی کی اجازت دینا POCSO قانون کی خلاف ورزی ہے جو کہ 18 سال سے کم عمر لڑکی کی شادی کو ناجائز قرار دیتا ہے اور شادی کے بعد بھی اس کے ساتھ جسمانی تعلق کو جرم کے زمرے میں رکھتا ہے۔ عرضی گزار کا مطالبہ ہے ایسے ملزمین کے خلاف POCSO کے تحت کارروائی کی جائے۔
مزید پڑھیں: Hindu girl to offer Namaz at Dargah ہندو لڑکی کو درگاہ میں نماز پڑھنے کیلئے ہائیکورٹ نے سکیورٹی فراہم کی
اس کے ساتھ ہی مفاد عامہ کی عرضی میں درخواست گزار نے لڑکیوں کی شادی کی عمر 18 سے بڑھا کر 21 سال کرنے کا بل منظور ہونے تک کسی بھی ذات، مذہب میں کم عمری میں ہونے والی شادیوں کو غیر قانونی ٹھہرانے کی درخواست کی ہے۔ اب عدالت اس معاملے کی سماعت 25 اگست کو کرے گی۔