ETV Bharat / state

اتراکھنڈ حکومت بین مذاہب حوصلہ افزا اسکیم میں ترمیم کرے گی

author img

By

Published : Nov 22, 2020, 10:00 AM IST

سوشل میڈیا پر 'لو جہاد' کے معاملے سامنے آنے کے بعد اتراکھنڈ حکومت بین مذاہب شادی پروموشن اسکیم میں ترمیم کرنے جارہی ہے۔

اتراکھنڈ حکومت بین مذاہب حوصلہ افزا اسکیم میں ترمیم کرے گی
اتراکھنڈ حکومت بین مذاہب حوصلہ افزا اسکیم میں ترمیم کرے گی

بین ذات اور بین المذاہب شادی کو لے کر ٹہری گڑھوال ضلع کے سوشل ویلفیئر آفیسر دپانکر گھلڈیال کے ذریعے دیے گئے دستخط شدہ حکم پر تنازع کھڑا ہو گیا ہے، حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ 'قومی ذات پات کی روح کو زندہ رکھنے اور معاشرتی اتحاد کو برقرار رکھنے کے لیے بین ذات اور بین الذاہب شادیوں سے بہت مدد مل سکتی ہے'۔ جس کے بعد ریاست میں بین المذاہب شادی پروموشن اسکیم پر ہنگامہ برپا ہوگیا ہے۔

وائرل خط
وائرل خط

اس کے ساتھ ہی 2014 میں اس وقت کی کانگریس حکومت کی جانب سے بین ذات اور بین المذاہب شادیوں کی حوصلہ افزائی کے لیے ترمیم شدہ خط پر بھی سوالات اٹھائے گئے ہیں، ان دونوں خطوط کے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد حکومت کی جانب سے مبینہ 'لو جہاد' کو بڑھاوا دینے کے الزامات لگنے لگے ہیں، تنازع میں اضافہ دیکھ کر اتراکھنڈ حکومت بین المذاہب شادی پروموشن اسکیم میں ترمیم کرنے جارہی ہے۔

بی جے پی کے ترجمان

در حقیقت 1976 میں بین ذات پات اور بین مذاہب شادیوں کی حوصلہ افزائی کے لیے سنہ 1976 میں بین ذات پات اور بین مذاہب شادیوں کی حوصلہ افزائی سے متعلقہ قواعد بنائے گئے تھے، اس میں بین ذات پات اور بین مذاہب شادی کرنے والے جوڑے کو 10 ہزار روپے بطور مراعات دینے کا اعلان کیا گیا تھا۔

2014 میں اس وقت کی کانگریس حکومت نے اس اسکیم کے شق چھ میں انعام کی رقم میں ترمیم کی تھی۔ اس کے تحت اتراکھنڈ میں شادی بیاہ اور بین مذاہب شادی کرنے والے جوڑے کو 50 ہزار روپے کی فراہمی کی تجویز کی گئی تھی۔

اس خط کے سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہونے کے بعد حکومت نے چیف سکریٹری اوم پرکاش کو اسکیم میں ترمیم کرنے کی ہدایت دی ہے، وزیر اعلی تریویندر سنگھ راوت کے میڈیا کوآرڈینیٹر درشن سنگھ راوت نے بتایا کہ اس اسکیم پر 2014 میں نظرثانی کی گئی تھی اور ایک نیا حکم جاری کیا گیا تھا، جس میں بین ذات اور بین المذاہب شادی پر 10 ہزار روپے کی حوصلہ افزا رقم کو بڑھا کر 50 ہزار روپے کر دیا گیا تھا لیکن اب اتراکھنڈ کی حکومت اس میں تبدیلی کرنے کا اردہ رکھتی ہے۔

ضلع مجسٹریٹ

درشن سنگھ راوت نے کہا کہ محکمہ سوشل ویلفیئر کے اس جی او سے صرف بین مذاہب شادی کے مسئلے کو نکال دیا جائے گا، اس منصوبے کا باقی حصہ ویسا ہی رہے گا۔

بتادیں کہ 18 نومبر کو ٹہری گڑھوال کے ضلع سماجی بہبود کے افسر دپانکر گھلڈیال کی جانب سے ایک پریس نوٹ جاری کیا گیا تھا جس میں یہ لکھا گیا تھا کہ بین المذاہب شادی یونین ڈسٹرکٹ بیورو کے تسلیم شدہ مندر، مسجد، چرچ یا دیوستھان میں ہونی چاہیے۔

وہیں اس پورے معاملے میں ٹہری ضلع کے مجسٹریٹ کا کہنا ہے کہ 'اس پورے معاملے میں سرکاری طور پر اس طرح کا کوئی معاملہ نہیں ہے، اس سارے معاملے کو انتظامیہ دیکھ رہا ہے اور قواعد کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی، ٹہری سے بی جے پی کے رکن اسمبلی دھن سنگھ نیگی نے کہا کہ بین المذاہب شادی کا جی او 2014 کے کانگریس حکومت کا ہے، جو عوام کے سامنے کانگریس کے کردار کو اجاگر کررہا ہے، کانگریس معاشرے کو تقسیم کرنے کے لیے کوشاں ہے، ایسی صورتحال میں تریویندر حکومت جلد ہی ترمیم کرنے جارہی ہے۔

کانگریس کے دور میں بین ذات پات اور بین مذاہب شادیوں پر شروع کی جانے والی مراعاتی اسکیم کے بارے میں حکومت کے تازہ بیان کے بعد سیاست میں شدت آگئی ہے، بی جے پی نے بھی واضح کیا ہے کہ حکومت بین ذات پات کی شادیوں کی حوصلہ افزائی کرے گی لیکن بین المذاہب شادی کو کسی طور پر بھی ترغیب نہیں دی جائے گی۔

بی جے پی کے چیف ترجمان ونئے گوئل نے کہا کہ کانگریس کے دور حکومت کے دوران شروع کی گئی یہ اسکیم اب یقینا قابل ترمیم ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اس پر غور کر رہی ہے۔ بی جے پی کے ترجمان ونے گوئل نے کہا کہ 'لو جہاد' جیسے گھناؤنے جرائم بین مذاہب شادیوں اور اس کے بعد کے واقعات سے پیدا ہوتے ہیں۔ اتراکھنڈ کی حکومت ان واقعات کو کم کرنے کی پوری کوشش کر رہی ہے۔

بین ذات اور بین المذاہب شادی کو لے کر ٹہری گڑھوال ضلع کے سوشل ویلفیئر آفیسر دپانکر گھلڈیال کے ذریعے دیے گئے دستخط شدہ حکم پر تنازع کھڑا ہو گیا ہے، حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ 'قومی ذات پات کی روح کو زندہ رکھنے اور معاشرتی اتحاد کو برقرار رکھنے کے لیے بین ذات اور بین الذاہب شادیوں سے بہت مدد مل سکتی ہے'۔ جس کے بعد ریاست میں بین المذاہب شادی پروموشن اسکیم پر ہنگامہ برپا ہوگیا ہے۔

وائرل خط
وائرل خط

اس کے ساتھ ہی 2014 میں اس وقت کی کانگریس حکومت کی جانب سے بین ذات اور بین المذاہب شادیوں کی حوصلہ افزائی کے لیے ترمیم شدہ خط پر بھی سوالات اٹھائے گئے ہیں، ان دونوں خطوط کے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد حکومت کی جانب سے مبینہ 'لو جہاد' کو بڑھاوا دینے کے الزامات لگنے لگے ہیں، تنازع میں اضافہ دیکھ کر اتراکھنڈ حکومت بین المذاہب شادی پروموشن اسکیم میں ترمیم کرنے جارہی ہے۔

بی جے پی کے ترجمان

در حقیقت 1976 میں بین ذات پات اور بین مذاہب شادیوں کی حوصلہ افزائی کے لیے سنہ 1976 میں بین ذات پات اور بین مذاہب شادیوں کی حوصلہ افزائی سے متعلقہ قواعد بنائے گئے تھے، اس میں بین ذات پات اور بین مذاہب شادی کرنے والے جوڑے کو 10 ہزار روپے بطور مراعات دینے کا اعلان کیا گیا تھا۔

2014 میں اس وقت کی کانگریس حکومت نے اس اسکیم کے شق چھ میں انعام کی رقم میں ترمیم کی تھی۔ اس کے تحت اتراکھنڈ میں شادی بیاہ اور بین مذاہب شادی کرنے والے جوڑے کو 50 ہزار روپے کی فراہمی کی تجویز کی گئی تھی۔

اس خط کے سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہونے کے بعد حکومت نے چیف سکریٹری اوم پرکاش کو اسکیم میں ترمیم کرنے کی ہدایت دی ہے، وزیر اعلی تریویندر سنگھ راوت کے میڈیا کوآرڈینیٹر درشن سنگھ راوت نے بتایا کہ اس اسکیم پر 2014 میں نظرثانی کی گئی تھی اور ایک نیا حکم جاری کیا گیا تھا، جس میں بین ذات اور بین المذاہب شادی پر 10 ہزار روپے کی حوصلہ افزا رقم کو بڑھا کر 50 ہزار روپے کر دیا گیا تھا لیکن اب اتراکھنڈ کی حکومت اس میں تبدیلی کرنے کا اردہ رکھتی ہے۔

ضلع مجسٹریٹ

درشن سنگھ راوت نے کہا کہ محکمہ سوشل ویلفیئر کے اس جی او سے صرف بین مذاہب شادی کے مسئلے کو نکال دیا جائے گا، اس منصوبے کا باقی حصہ ویسا ہی رہے گا۔

بتادیں کہ 18 نومبر کو ٹہری گڑھوال کے ضلع سماجی بہبود کے افسر دپانکر گھلڈیال کی جانب سے ایک پریس نوٹ جاری کیا گیا تھا جس میں یہ لکھا گیا تھا کہ بین المذاہب شادی یونین ڈسٹرکٹ بیورو کے تسلیم شدہ مندر، مسجد، چرچ یا دیوستھان میں ہونی چاہیے۔

وہیں اس پورے معاملے میں ٹہری ضلع کے مجسٹریٹ کا کہنا ہے کہ 'اس پورے معاملے میں سرکاری طور پر اس طرح کا کوئی معاملہ نہیں ہے، اس سارے معاملے کو انتظامیہ دیکھ رہا ہے اور قواعد کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی، ٹہری سے بی جے پی کے رکن اسمبلی دھن سنگھ نیگی نے کہا کہ بین المذاہب شادی کا جی او 2014 کے کانگریس حکومت کا ہے، جو عوام کے سامنے کانگریس کے کردار کو اجاگر کررہا ہے، کانگریس معاشرے کو تقسیم کرنے کے لیے کوشاں ہے، ایسی صورتحال میں تریویندر حکومت جلد ہی ترمیم کرنے جارہی ہے۔

کانگریس کے دور میں بین ذات پات اور بین مذاہب شادیوں پر شروع کی جانے والی مراعاتی اسکیم کے بارے میں حکومت کے تازہ بیان کے بعد سیاست میں شدت آگئی ہے، بی جے پی نے بھی واضح کیا ہے کہ حکومت بین ذات پات کی شادیوں کی حوصلہ افزائی کرے گی لیکن بین المذاہب شادی کو کسی طور پر بھی ترغیب نہیں دی جائے گی۔

بی جے پی کے چیف ترجمان ونئے گوئل نے کہا کہ کانگریس کے دور حکومت کے دوران شروع کی گئی یہ اسکیم اب یقینا قابل ترمیم ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اس پر غور کر رہی ہے۔ بی جے پی کے ترجمان ونے گوئل نے کہا کہ 'لو جہاد' جیسے گھناؤنے جرائم بین مذاہب شادیوں اور اس کے بعد کے واقعات سے پیدا ہوتے ہیں۔ اتراکھنڈ کی حکومت ان واقعات کو کم کرنے کی پوری کوشش کر رہی ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.