ETV Bharat / state

’ہنسی‘ کی رلادینے والی کہانی

راجیہ سبھا رکن پردیپ ٹمٹا کے خلاف اسمبلی انتخاب لڑنے والی ہنسی آج بھیک مانگنے پر مجبور ہیں۔ فراٹے سے انگلش بولنے والی ہنسی نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ وہ کماؤں یونیورسٹی میں اسٹوڈینٹ یونیئن کی نائب صدر رہ چکی ہیں۔

رلا دے گی ہنسی کی کہانی
’ہنسی‘ کی رلادینے والی کہانی
author img

By

Published : Oct 18, 2020, 10:34 PM IST

Updated : Oct 19, 2020, 4:12 AM IST

آج ہم آپ کو ایک ایسی بھیک مانگنے والی خاتون سے روبرو کرائیں گے، جو کبھی اسمبلی انتخابات میں حصہ لے چکی ہیں اور کماؤں یونیورسٹی کی اسٹوڈنٹس یونین کی سابق نائب صدر ہیں۔

’ہنسی‘ کی رلادینے والی کہانی

اسٹوڈنٹس یونین کی سابق نائب صدر ہنسی نے کماؤں یونیورسٹی سے دو بار ایم اے کی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد انہوں نے یونیورسٹی کی لائبریری میں ہی نوکری کی، لیکن آج ان کی یہ حالت ہے کہ پڑھائی میں تیز ہنسی ہری دوار کی سڑکوں، ریلوے اسٹیشن، بس اڈوں اور گنگا کے گھاٹوں پر بھیک مانگنے پر مجبور ہیں۔

رلا دے گی ہنسی کی کہانی
رلا دے گی ہنسی کی کہانی

اتراکھنڈ کے الموڑہ ضلع کے سومیشور اسمبلی حلقہ میں رنکھلا گاؤں پڑتا ہے۔ اسی گاؤں میں پلی بڑھیں ہنسی پانچ بھائی بہنوں میں سے سب سے بڑی بیٹی ہیں۔ پہاڑی خاندان میں سب کچھ بہتر چل رہا تھا۔ خاندان کی سب سے بڑی بیٹی ہنسی کی پورے گاؤں میں باتیں ہوتی تھیں۔ والد چھوٹا سا کاروبار کرتے تھے۔ اپنے بچوں کو بڑھانے کے لیے انہوں نے دن رات ایک کر دی تھی۔

رلا دے گی ہنسی کی کہانی
رلا دے گی ہنسی کی کہانی

ہنسی اسٹوڈینٹ یونیئن کی نائب صدر رہ چکی ہیں

خاندان کی سب سے بڑی بیٹی ہنسی گاؤں کے چھوٹے سے اسکول سے پاس ہو کر کماؤں یونیورسٹی میں داخلہ لینے پہنچ گئی۔ وہ پڑھنے میں اتنی تیز تھیں کہ سال 1998-99 اور 2000 میں وہ تب سرخیوں میں آئیں جب کماؤں یونیورسٹی میں اسٹودینٹ یونیئن کی نائب صدر منتخب ہوئیں۔ اس کے ساتھ ہی کماؤں یونیورسٹی سے دو بار ایم اے کی پڑھائی کرنے کے بعد ہنسی نے کماؤں یونیورسٹی کی لائبریری میں نوکری کی۔

رلا دے گی ہنسی کی کہانی
رلا دے گی ہنسی کی کہانی

ہنسی کماؤں یونیورسٹی میں چار سال لائبریرین رہیں

ہنسی پرہری بتاتی ہیں کہ انہوں نے تقریبا چار سال کماؤ یونیورسٹی میں نوکری کی۔ انہیں یہ نوکری اس لیے ملی کیوںکہ وہ کماؤں یونیورسٹی میں ہونے والی تمام تعلیمی مقابلوں میں حصہ لیتی تھیں۔ چاہے وہ ثقافتی پروگرام۔ وہ سبھی میں اول آیا کرتی تھیں۔ اس کے بعد انہوں نے 2008 تک پرائیویٹ نوکری کی۔

رلا دے گی ہنسی کی کہانی
رلا دے گی ہنسی کی کہانی

شادی سے تبدیل ہوئی زندگی

ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے ہنسی نے کہا کہ وہ نہیں جانتی کہ سال 2011 نے ان کی زندگی میں کیسے تبدیلی لائی۔ انہوں نے بتایا کہ وہ جو اس وقت زندکی جی رہی ہیں، وہ شادی کے باد ہوئی ہے۔ ان کی شادی میں سب کچھ ٹھیک نہیں تھا۔ ہنسی نے اپنے خاندانی زندگی پر زیادہ بات نہیں کی لیکن ان کا کہنا ہے کہ جس علاقے سے وہ آتی ہیں، وہاں پر اگر اس طرح کی باتیں پتہ چلیں گی تو اس کا اثر ان کے خاندان پر پڑے گا۔

ہنسی کا لگاؤ مذہب میں ہو گیا

شادی شدہ زندگی میں نشیب وفراز کے بعد ہنسی کچھ وقت تک مایوس رہی اور اسی درمیان ان کا مذہبیات کی جانب لگاؤ ہوا۔ انہوں نے خاندان سے الگ ہو کر ہری دوار میں آباد ہونے کا فیصلہ کیا اور وہیں پہنچ گئی۔ تب سے ہی وہ اپنے خاندان سے الگ ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ اس دوران ان کی صحت خراب رہنے لگی اور وہ ملازمت کرنے کے لائق نہیں رہی۔ اسی دوران انہوں نے بھیک مانگنا شروع کیا، لیکن اب ان کو لگتا ہے کہ اگر ان کا اچھا علاج ہو اور بچے کو رہنے کا ٹھکانہ مل جائے تو وہ اب بھی نوکری کر سکتی ہیں۔

فٹ پاتھ پر زندگی گزارنے پر مجبور

ہنسی کا کہنا ہے کہ وہ سال 2012 کے بعد سے ہی ہردوار میں بھیک مانک کر اپنا اور اپنے چھ سال کے بچے کو پال رہی ہیں۔ ہنسی کے دو بچے ہیں۔ بیٹی نانی کے ساتھ رہتی ہے اور ان کا بیٹا ان کے ساتھ فٹ پاتھ پر زندگی گزار رہا ہے۔

ہنسی اپنے بچے کو تعلیم دیتی ہیں

اچھی انگریزی بولنے والی ہنسی جب بھی وقت ملتا ہے تو اپنے بیٹے کو فٹ پاتھ پر ہی بیٹھ کر انگریز، ہندی، سنسکرت اور تمام جانکاریاں دیتی ہیں۔ وہ چاہتی ہیں کہ جو بھی ان کے پاس علم ہے وہ اپنے بیٹے کو دے کر جائے۔ ان کی یہ کوشش ہے کہ ان کے بچے پڑھ لکھ کر سرکاری نوکری کرے۔

وزیر اعلی سے مدد کی اپیل

ہنسی کئی بار ریاست کے وزیر اعلی کو خط لکھ چکی ہیں کہ ان کی مدد کی جائے۔ وہ کئی بار اسمبلی کے چکر لگا چکی ہیں۔ اس تعلق سے ان کے پاس دستاویز بھی ہیں۔ ہنسی کا کہنا ہے کہ اگر حکومت ان کی مدد کرتی ہے تو وہ آج بھی اپنے بچے کو اچھی تعلیم دے سکتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: اصل پشمینہ کے جی آئی مارک کی تشہیر کیوں نہیں ہو پارہی ہے؟


ہنسی اپنے بچے کو اچھی تعلیم دے رہی ہیں

ہنسی کا بیٹا بھی اپنی ماں کے ساتھ فٹ پاتھ پر بیٹھا ہے۔ بچہ بڑا ہو کر آفیسر بننا چاہتا ہے۔ آنکھوں میں خواب لیے اس معصوم کو بھلے ہی نہ معلوم ہو کہ وہ ابھی کس جگہ رہ رہا ہے لیکن ان کی انکھوں میں دکھتی امید یہ ضرور بتاتی ہے کہ کل یہ بچہ اپنی ماں کا نام روشن کرے گا ۔

راجیہ سبھا کے رکن پردیش ٹمٹا نے مدد کرنے کی یقین دہانی کرائی۔

ہنسی کے بارے میں جب ای ٹی وی بھارت نے راجیہ سبھا رکن پردیپ ٹمٹا سے بات کی تو انہوں نے اس بات کا ذکر کیا کہ ہنسی سنہ 2002 میں اسمبلی انتخاب میں حصہ لے چکی ہے۔ وہ بڑھی لکھی امیدوار تھیں۔ وہ میرے خلاف انتخاب میں اتری تھیں اور دوسرے نمبر پر رہی تھی۔ آخر تک یہی لگ رہا تھا کہ یہ لڑکی کچھ فیر بدل کر سکتی ہے، لیکن وہ انتخاب نہیں جیت سکی۔ راجیہ سبھا پردیپ ٹمٹا نے جب ہنسی کے بارے میں سنا کہ وہ بھیک مانگنے پر مجبور ہے تو انہوں نے اس کا حال چال جاننے میں دلچسپی دکھائی۔

ایک اپیل

اس خبر کے ذریعے ای ٹی وی بھارت کا مقصد ہنسی کی بات کو حکومت تک پہنچانا ہے پہاڑ کی ایک تعلیم یافتہ لڑکی سڑکوں پر بھکاری کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ اگر حکومت سے کچھ بھی مدد ملتی ہے تو امید ہے کہ ہنسی کے سر پر ایک چھت ضرور ہو جائے گی اور وہ اپنے ساتھ ہی اپنے بچوں کو آچھی زندکی دے سکے گی۔

آج ہم آپ کو ایک ایسی بھیک مانگنے والی خاتون سے روبرو کرائیں گے، جو کبھی اسمبلی انتخابات میں حصہ لے چکی ہیں اور کماؤں یونیورسٹی کی اسٹوڈنٹس یونین کی سابق نائب صدر ہیں۔

’ہنسی‘ کی رلادینے والی کہانی

اسٹوڈنٹس یونین کی سابق نائب صدر ہنسی نے کماؤں یونیورسٹی سے دو بار ایم اے کی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد انہوں نے یونیورسٹی کی لائبریری میں ہی نوکری کی، لیکن آج ان کی یہ حالت ہے کہ پڑھائی میں تیز ہنسی ہری دوار کی سڑکوں، ریلوے اسٹیشن، بس اڈوں اور گنگا کے گھاٹوں پر بھیک مانگنے پر مجبور ہیں۔

رلا دے گی ہنسی کی کہانی
رلا دے گی ہنسی کی کہانی

اتراکھنڈ کے الموڑہ ضلع کے سومیشور اسمبلی حلقہ میں رنکھلا گاؤں پڑتا ہے۔ اسی گاؤں میں پلی بڑھیں ہنسی پانچ بھائی بہنوں میں سے سب سے بڑی بیٹی ہیں۔ پہاڑی خاندان میں سب کچھ بہتر چل رہا تھا۔ خاندان کی سب سے بڑی بیٹی ہنسی کی پورے گاؤں میں باتیں ہوتی تھیں۔ والد چھوٹا سا کاروبار کرتے تھے۔ اپنے بچوں کو بڑھانے کے لیے انہوں نے دن رات ایک کر دی تھی۔

رلا دے گی ہنسی کی کہانی
رلا دے گی ہنسی کی کہانی

ہنسی اسٹوڈینٹ یونیئن کی نائب صدر رہ چکی ہیں

خاندان کی سب سے بڑی بیٹی ہنسی گاؤں کے چھوٹے سے اسکول سے پاس ہو کر کماؤں یونیورسٹی میں داخلہ لینے پہنچ گئی۔ وہ پڑھنے میں اتنی تیز تھیں کہ سال 1998-99 اور 2000 میں وہ تب سرخیوں میں آئیں جب کماؤں یونیورسٹی میں اسٹودینٹ یونیئن کی نائب صدر منتخب ہوئیں۔ اس کے ساتھ ہی کماؤں یونیورسٹی سے دو بار ایم اے کی پڑھائی کرنے کے بعد ہنسی نے کماؤں یونیورسٹی کی لائبریری میں نوکری کی۔

رلا دے گی ہنسی کی کہانی
رلا دے گی ہنسی کی کہانی

ہنسی کماؤں یونیورسٹی میں چار سال لائبریرین رہیں

ہنسی پرہری بتاتی ہیں کہ انہوں نے تقریبا چار سال کماؤ یونیورسٹی میں نوکری کی۔ انہیں یہ نوکری اس لیے ملی کیوںکہ وہ کماؤں یونیورسٹی میں ہونے والی تمام تعلیمی مقابلوں میں حصہ لیتی تھیں۔ چاہے وہ ثقافتی پروگرام۔ وہ سبھی میں اول آیا کرتی تھیں۔ اس کے بعد انہوں نے 2008 تک پرائیویٹ نوکری کی۔

رلا دے گی ہنسی کی کہانی
رلا دے گی ہنسی کی کہانی

شادی سے تبدیل ہوئی زندگی

ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے ہنسی نے کہا کہ وہ نہیں جانتی کہ سال 2011 نے ان کی زندگی میں کیسے تبدیلی لائی۔ انہوں نے بتایا کہ وہ جو اس وقت زندکی جی رہی ہیں، وہ شادی کے باد ہوئی ہے۔ ان کی شادی میں سب کچھ ٹھیک نہیں تھا۔ ہنسی نے اپنے خاندانی زندگی پر زیادہ بات نہیں کی لیکن ان کا کہنا ہے کہ جس علاقے سے وہ آتی ہیں، وہاں پر اگر اس طرح کی باتیں پتہ چلیں گی تو اس کا اثر ان کے خاندان پر پڑے گا۔

ہنسی کا لگاؤ مذہب میں ہو گیا

شادی شدہ زندگی میں نشیب وفراز کے بعد ہنسی کچھ وقت تک مایوس رہی اور اسی درمیان ان کا مذہبیات کی جانب لگاؤ ہوا۔ انہوں نے خاندان سے الگ ہو کر ہری دوار میں آباد ہونے کا فیصلہ کیا اور وہیں پہنچ گئی۔ تب سے ہی وہ اپنے خاندان سے الگ ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ اس دوران ان کی صحت خراب رہنے لگی اور وہ ملازمت کرنے کے لائق نہیں رہی۔ اسی دوران انہوں نے بھیک مانگنا شروع کیا، لیکن اب ان کو لگتا ہے کہ اگر ان کا اچھا علاج ہو اور بچے کو رہنے کا ٹھکانہ مل جائے تو وہ اب بھی نوکری کر سکتی ہیں۔

فٹ پاتھ پر زندگی گزارنے پر مجبور

ہنسی کا کہنا ہے کہ وہ سال 2012 کے بعد سے ہی ہردوار میں بھیک مانک کر اپنا اور اپنے چھ سال کے بچے کو پال رہی ہیں۔ ہنسی کے دو بچے ہیں۔ بیٹی نانی کے ساتھ رہتی ہے اور ان کا بیٹا ان کے ساتھ فٹ پاتھ پر زندگی گزار رہا ہے۔

ہنسی اپنے بچے کو تعلیم دیتی ہیں

اچھی انگریزی بولنے والی ہنسی جب بھی وقت ملتا ہے تو اپنے بیٹے کو فٹ پاتھ پر ہی بیٹھ کر انگریز، ہندی، سنسکرت اور تمام جانکاریاں دیتی ہیں۔ وہ چاہتی ہیں کہ جو بھی ان کے پاس علم ہے وہ اپنے بیٹے کو دے کر جائے۔ ان کی یہ کوشش ہے کہ ان کے بچے پڑھ لکھ کر سرکاری نوکری کرے۔

وزیر اعلی سے مدد کی اپیل

ہنسی کئی بار ریاست کے وزیر اعلی کو خط لکھ چکی ہیں کہ ان کی مدد کی جائے۔ وہ کئی بار اسمبلی کے چکر لگا چکی ہیں۔ اس تعلق سے ان کے پاس دستاویز بھی ہیں۔ ہنسی کا کہنا ہے کہ اگر حکومت ان کی مدد کرتی ہے تو وہ آج بھی اپنے بچے کو اچھی تعلیم دے سکتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: اصل پشمینہ کے جی آئی مارک کی تشہیر کیوں نہیں ہو پارہی ہے؟


ہنسی اپنے بچے کو اچھی تعلیم دے رہی ہیں

ہنسی کا بیٹا بھی اپنی ماں کے ساتھ فٹ پاتھ پر بیٹھا ہے۔ بچہ بڑا ہو کر آفیسر بننا چاہتا ہے۔ آنکھوں میں خواب لیے اس معصوم کو بھلے ہی نہ معلوم ہو کہ وہ ابھی کس جگہ رہ رہا ہے لیکن ان کی انکھوں میں دکھتی امید یہ ضرور بتاتی ہے کہ کل یہ بچہ اپنی ماں کا نام روشن کرے گا ۔

راجیہ سبھا کے رکن پردیش ٹمٹا نے مدد کرنے کی یقین دہانی کرائی۔

ہنسی کے بارے میں جب ای ٹی وی بھارت نے راجیہ سبھا رکن پردیپ ٹمٹا سے بات کی تو انہوں نے اس بات کا ذکر کیا کہ ہنسی سنہ 2002 میں اسمبلی انتخاب میں حصہ لے چکی ہے۔ وہ بڑھی لکھی امیدوار تھیں۔ وہ میرے خلاف انتخاب میں اتری تھیں اور دوسرے نمبر پر رہی تھی۔ آخر تک یہی لگ رہا تھا کہ یہ لڑکی کچھ فیر بدل کر سکتی ہے، لیکن وہ انتخاب نہیں جیت سکی۔ راجیہ سبھا پردیپ ٹمٹا نے جب ہنسی کے بارے میں سنا کہ وہ بھیک مانگنے پر مجبور ہے تو انہوں نے اس کا حال چال جاننے میں دلچسپی دکھائی۔

ایک اپیل

اس خبر کے ذریعے ای ٹی وی بھارت کا مقصد ہنسی کی بات کو حکومت تک پہنچانا ہے پہاڑ کی ایک تعلیم یافتہ لڑکی سڑکوں پر بھکاری کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ اگر حکومت سے کچھ بھی مدد ملتی ہے تو امید ہے کہ ہنسی کے سر پر ایک چھت ضرور ہو جائے گی اور وہ اپنے ساتھ ہی اپنے بچوں کو آچھی زندکی دے سکے گی۔

Last Updated : Oct 19, 2020, 4:12 AM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.