پیر کی دیر رات لداخ کی ایل اے سی پر بھارت اور چین کے مابین پُرتشدد تصادم میں دونوں ممالک کے فوجیوں کو بہت نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ بھارت کے 20 فوجی ہلاک ہوئے ہیں جبکہ اس وقت چین سے ایسی کوئی اطلاع نہیں ملی ہے لیکن امریکی خفیہ اطلاعات کے مطابق چین کے کمانڈر سمیت 35 فوجی ہلاک ہوگئے ہیں۔ ایسی صورتحال میں دونوں ممالک کے مابین جنگ ہی واحد راستہ ہے۔ اس سلسلے میں ای ٹی وی بھارت نے ریٹائرڈ بریگیڈیئر کے جی بہل سے خصوصی گفتگو کی۔ آئیے جانتے ہیں کہ وہ اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟
45 سال کے بعد ایل اے سی پر بھارتی اور چینی فوجیوں کے درمیان پرتشدد تصادم ہوا ہے۔ اس سے قبل 1975 میں بھارت کی جانب سے تین فوجی ہلاک ہوئے تھے۔ اس بار بھارتی فوج کے 20 جوان ہلاک ہوگئے ہیں۔
تاہم ذرائع کے مطابق چین کو بھارت سے زیادہ تکلیف اٹھانی پڑ رہی ہے لہذا وہ اپنے فوجیوں کے بارے میں کوئی معلومات شیئر نہیں کر رہا ہے۔ کیونکہ ایل اے سی پر چینی فوجیوں کے کچھ ہیلی کاپٹر دیکھے گئے تھے جو اپنے فوجیوں کو ایئر لفٹ کرنے پہنچے تھے۔
سرحد پر بگڑتے ہوئے حالات کے درمیان اس واقعے کا اثر عام لوگوں پر بھی نظر آرہا ہے۔ ملک بھر کے لوگوں کی حزب اختلاف کی جماعتیں مودی حکومت سے انتقام لینے کی باتیں کر رہی ہیں۔ سڑک پر لوگ چین کے خلاف مظاہرہ کر رہے ہیں اور حکومت سے کارروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ دوسری جانب وزیر اعظم مودی نے بھی چین کے معاملے پر کل جماعتی اجلاس طلب کیا ہے۔
مجموعی طور پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ صورتحال ٹھیک نہیں ہے۔ ایسی صورتحال میں ای ٹی وی بھارت نے ریٹائرڈ بریگیڈیئر کے جی بہل سے بات کی اور وادی گلوان کی صورتحال کو سمجھا۔
کے جی بہل نے کہا کہ یہ دونوں ممالک کے مابین تنازعہ نہیں ہے بلکہ وادی میں موجود فوجی دستوں کے مابین باہمی تصادم ہے۔ اس کے باوجود یہ قطع نہیں مانا جانا چاہئے کہ بھارت اور چین کے مابین جنگ ہونے والی ہے کیونکہ کسی بھی حالت میں چین بھارت پر حملہ کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے۔
کے جی بہل کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں سفارتی مذاکرات ہی واحد راستہ ہے۔ اس تناظر میں بات چیت ہو رہی ہے۔ بین الاقوامی فورم پر چین کی غلطی کی بھی وضاحت کی جا سکتی ہے۔
ریٹائرڈ بریگیڈیئر نے بتایا کہ بھارت اپنی سرحد میں سڑک تعمیر کر رہا ہے اور اس سے چین کو تشویش لاحق ہے اور یہی وجہ ہے کہ چینی فوج نے اس طرح کی کارروائی کی ہے۔