زری کا کام بھلے ہی بھارت اور دوسرے ممالک میں مقبول ہو لیکن زردوزی کاریگر فاقہ کشی پر مجبور ہیں کیونکہ ان کا پرسان حال کوئی نہیں۔
زردوزی صنعت بھلے ہی بھارت میں زمانہ قدیم سے چلی آرہی ہو لیکن مغل شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر نے اپنے دور اقتدار میں ایرانی فنکاروں کو بھارت میں فروغ دیا اور مغلیہ دور حکومت کی شان و شوکت زردوزی بن گئی۔
زردوزی زمانہ قدیم میں شروع ہوئی اور مغل دور حکومت میں بلندیوں پر پہنچی، اس کے بعد اودھ کے نوابوں نے لکھنؤ کو زردوزی کا مرکز بنا کر اس کام میں چار چاند لگا دیا۔ لیکن آج حالات تشویش ناک ہو گئے ہیں۔
![Zardozi industry on the verge of extinction Lucknow](https://etvbharatimages.akamaized.net/etvbharat/prod-images/up-luc-03-zardoji-pkg-7204798_20082020142457_2008f_01301_548.jpg)
ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران کاریگر سید ناصر علی نے بتایا کہ میں 15 سال سے اس پیشے سے منسلک ہوں۔ ہمیں پہلے بھی کم پیسے ملتے تھے اور اب بھی وہی حالات ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر یوں ہی چلتا رہا تو مستقبل میں یہ کام ختم ہوجائے گا کیوں کہ اس کے فنکار مجبوری میں دوسرے کاموں میں ذریعہ معاش تلاش کرنے کے لئے چلے گئے ہیں۔
![Zardozi industry on the verge of extinction Lucknow](https://etvbharatimages.akamaized.net/etvbharat/prod-images/up-luc-03-zardoji-pkg-7204798_20082020142457_2008f_01301_611.jpg)
کارخانہ مالک محمد کلیم نے کہا کہ ہماری اتنی آمدنی ہو جاتی ہے کہ پریوار کا پیٹ بھر سکیں، ورنہ اس کام میں اب کوئی منافع نہیں رہا۔ اگر حکومت چاہے تو ہمارے دن بہتر ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہماری آواز، ہمارے مسائل اور ہماری پریشانیوں کو حکومت تک پہنچانے والی کوئی انجمن نہیں ہے۔ اگر حکومت نے مدد نہ کی تو یہ کام جلد ہی ختم ہو جائے گا۔ کیوں کہ ایک دن میں کاریگروں کو محض 150-160 روپے ہی مل پاتے ہیں جبکہ اخراجات بہت زیادہ ہیں۔
![Zardozi industry on the verge of extinction Lucknow](https://etvbharatimages.akamaized.net/etvbharat/prod-images/up-luc-03-zardoji-pkg-7204798_20082020142457_2008f_01301_640.jpg)
کارخانہ مالک اطہر نے بتایا کہ پہلے نوٹ بندی پھر جی ایس ٹی اور اب کورونا وبا نے کاریگروں کی کمر توڑ دی ہے۔ اگر حکومت نے وقت رہتے ہماری مالی امداد نہ کی اور 'لون' نہ دیا تو بہت جلد زری کام ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے گا۔
مزید پڑھیے: حکومت کی عدم توجہی سے بنکروں کا وجود خطرے میں
انہوں بتایا کہ نئے لوگ اس کام کو سیکھ نہیں رہیں اور جو لوگ کام کر رہے ہیں، وہ مجبوری میں لگے ہوئے ہیں کیونکہ انھیں کوئی دوسرا کام نہیں آتا لہذا زردوزی کا مستقبل روشن کرنے کے لئے حکومت زمینی حقائق سے واقفیت رکھتے ہوئے بہتر پالیسی بنائے، جس سے کاریگروں کی پریشانی دور ہو۔
![Zardozi industry on the verge of extinction Lucknow](https://etvbharatimages.akamaized.net/etvbharat/prod-images/up-luc-03-zardoji-pkg-7204798_20082020142457_2008f_01301_786.jpg)
آپ کو جان کر تعجب ہوگا کہ جن کاریگروں کو محض 150-200 روپے ملتے ہوں، وہی زری کے کپڑے شو روم میں پہنچتے ہی ہزاروں روپے میں بیچے جاتے ہیں۔ ایک طرف جہاں اس کام میں پیسے کم ہیں، وہیں کاریگروں کی آنکھ کی روشنی میں کمی اور دوسرے امراض میں مبتلا ہونا پڑتا ہے۔