ETV Bharat / state

'ہم فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کریں گے'

author img

By

Published : Sep 30, 2020, 3:55 PM IST

Updated : Sep 30, 2020, 4:55 PM IST

بابری مسجد انہدام معاملے میں لکھنؤ کی سی بی آئی اسپیشل کورٹ میں سخت سکیورٹی کے درمیان سماعت ہوئی، اس دوران تمام 32 ملزمین کو بری کردیا گیا ہے۔

zafaryab jilani will challenge cbi court verdict
'ہم فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کریں گے'

سی بی آئی کی خصوصی عدالت کے فیصلے کے بعد سیاسی حلقوں اور مسلم تنظیموں میں ایودھیا معاملہ ایک پھر ابھر کر سامنے آیا ہے۔

'ہم فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کریں گے'

اس فیصلے کو لے کر جہاں مسلم علما نے افسوس کا اظہار کیا ہے وہیں ظفریاب جیلانی نے کہا ہے کہ وہ فیصلے کو سہی نہیں مانتے جس پر وہ ہائی کورٹ کا رخ کریں گے اور فیصلے کو چیلنج کریں گے۔

ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران ایکشن کمیٹی کے کنوینر ظفریاب جیلانی نے کہا کہ ہمیں ایسے فیصلے کی بالکل امید نہیں تھی۔ فیصلہ ثبوت کی بنیاد پر ہوتا ہے لیکن سی بی آئی کی اسپیشل کورٹ کے جج نے ثبوت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کا حوالہ دیتے ہوئے ملزمین کو باعزت بری کر دیا۔

ایڈووکیٹ ظفریاب جیلانی نے کہا کہ فیصلہ نہ ثبوت کے لحاظ سے درست ہے اور نہ ہی قانون کے لحاظ سے۔ ویڈیوز اور فوٹوز بطور ثبوت پیش کیے گئے تھے، ہم ان کی بات نہیں کر رہے ہیں لیکن 6 دسمبر کو پولیس افسران، سی آر پی ایف کے افسران اور بڑے صحافی بھی موجود تھے، جو چشم دید گواہ تھے۔ مجھے سمجھ میں نہیں آتا کہ کورٹ نے ان گواہوں کو کیسے نظر انداز کر دیا؟

ساکشی مہاراج کے وکیل نے بتایا کہ کار سیوک نے مسجد نہیں توڑی بلکہ کچھ شر پسندوں نے سازش کے تحت مسجد گرانے کا کام کیا تھا۔ ظفریاب جیلانی نے کہا کہ سوال اٹھتا ہے کہ "ایک دھکا اور دو، بابری مسجد توڑ دو" اس طرح کی نعرے بازی وہاں ہو رہی تھی اور بڑے لیڈران ان کی تائید کر رہے تھے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ مسجد منہدم کرنے والے انہیں لوگوں کے پیروکار تھے۔

قابل ذکر ہے کہ بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے کنوینر ظفریاب جیلانی نے کہا کہ ہم ہائی کورٹ میں اپیل کریں گے۔ اس میں پرسنل لا بورڈ اور بابری مسجد ایکشن کمیٹی پیروی کرے گی جبکہ ایودھیا کے لوگ پارٹی بنیں گے۔ اگر ضرورت پڑی تو پرسنل لا بورڈ بھی پارٹی بن سکتی ہے۔

واضح رہے کہ یہ فیصلہ 28 سال بعد آیا ہے۔ یہ فیصلہ بطور جج ایس کے یادو کا آخری فیصلہ تھا، اس کو دیکھتے ہوئے لکھنؤ سمیت پوری ریاست میں حفاظتی انتظامات سخت کیے گئے تھے۔

سی بی آئی کی خصوصی عدالت کے فیصلے کے بعد سیاسی حلقوں اور مسلم تنظیموں میں ایودھیا معاملہ ایک پھر ابھر کر سامنے آیا ہے۔

'ہم فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کریں گے'

اس فیصلے کو لے کر جہاں مسلم علما نے افسوس کا اظہار کیا ہے وہیں ظفریاب جیلانی نے کہا ہے کہ وہ فیصلے کو سہی نہیں مانتے جس پر وہ ہائی کورٹ کا رخ کریں گے اور فیصلے کو چیلنج کریں گے۔

ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران ایکشن کمیٹی کے کنوینر ظفریاب جیلانی نے کہا کہ ہمیں ایسے فیصلے کی بالکل امید نہیں تھی۔ فیصلہ ثبوت کی بنیاد پر ہوتا ہے لیکن سی بی آئی کی اسپیشل کورٹ کے جج نے ثبوت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کا حوالہ دیتے ہوئے ملزمین کو باعزت بری کر دیا۔

ایڈووکیٹ ظفریاب جیلانی نے کہا کہ فیصلہ نہ ثبوت کے لحاظ سے درست ہے اور نہ ہی قانون کے لحاظ سے۔ ویڈیوز اور فوٹوز بطور ثبوت پیش کیے گئے تھے، ہم ان کی بات نہیں کر رہے ہیں لیکن 6 دسمبر کو پولیس افسران، سی آر پی ایف کے افسران اور بڑے صحافی بھی موجود تھے، جو چشم دید گواہ تھے۔ مجھے سمجھ میں نہیں آتا کہ کورٹ نے ان گواہوں کو کیسے نظر انداز کر دیا؟

ساکشی مہاراج کے وکیل نے بتایا کہ کار سیوک نے مسجد نہیں توڑی بلکہ کچھ شر پسندوں نے سازش کے تحت مسجد گرانے کا کام کیا تھا۔ ظفریاب جیلانی نے کہا کہ سوال اٹھتا ہے کہ "ایک دھکا اور دو، بابری مسجد توڑ دو" اس طرح کی نعرے بازی وہاں ہو رہی تھی اور بڑے لیڈران ان کی تائید کر رہے تھے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ مسجد منہدم کرنے والے انہیں لوگوں کے پیروکار تھے۔

قابل ذکر ہے کہ بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے کنوینر ظفریاب جیلانی نے کہا کہ ہم ہائی کورٹ میں اپیل کریں گے۔ اس میں پرسنل لا بورڈ اور بابری مسجد ایکشن کمیٹی پیروی کرے گی جبکہ ایودھیا کے لوگ پارٹی بنیں گے۔ اگر ضرورت پڑی تو پرسنل لا بورڈ بھی پارٹی بن سکتی ہے۔

واضح رہے کہ یہ فیصلہ 28 سال بعد آیا ہے۔ یہ فیصلہ بطور جج ایس کے یادو کا آخری فیصلہ تھا، اس کو دیکھتے ہوئے لکھنؤ سمیت پوری ریاست میں حفاظتی انتظامات سخت کیے گئے تھے۔

Last Updated : Sep 30, 2020, 4:55 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.