ETV Bharat / state

Exclusive Interview With Sareshwala مسلمان ایک زندہ قوم ہے، قوم کا تعلیم یافتہ ہونا ضروری، ظفر سریش والا

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے این آر ایس سی ہال میں جشن یوم سر سید تقریب کی صدارت کرتے ہوئے ظفر سریش والا نے ای ٹی وی بھارت سے خصوصی گفتگو میں کہا کہ "بیداری دیکھ کر خوشی ہوئی، قوم زندہ ہے۔ بس اس کو ڈائریکشن کی ضرورت ہے"۔

ظفر سریش والا سے ای ٹی وی بھارت نے خصوصی گفتگو کی
ظفر سریش والا سے ای ٹی وی بھارت نے خصوصی گفتگو کی
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Oct 19, 2023, 3:18 PM IST

ظفر سریش والا سے ای ٹی وی بھارت نے خصوصی گفتگو کی

علیگڑھ: بانی درسگاہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سرسید احمد خان کی 206ویں یوم پیدائش کے موقع پر جشن یوم سر سید تقریبات کا اہتمام عالمی شہرت یافتہ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی میں بڑی ہی شان و شوکت عزت و احترام سے کیا جاتا ہے۔ یونیورسٹی کے 22 اقامتی ہالوں میں بھی تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے، جس میں مہمان خصوصی اور اعزازی بھی ہوتے ہیں۔ اے ایم یو کے سب سے بڑے ہال 'غیر رہائشی طلباء کا مرکز' (این آر ایس سی) میں جشن یوم سر سید تقریب کی صدارت کرتے ہوئے ظفر سریش والا (سابق چانسلر مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدرآباد) نے تقریب میں طلباء کی تعداد ان کے جوش و جذبے کو دیکھ کر متاثر ہوتے ہوئے کہا کہ 'بیداری دیکھ کر خوشی ہوئی، قوم زندہ ہے بس اس کو ڈائریکشن کی ضرورت ہے۔'

یہ بھی پڑھیں:

Zafar Sareshwala مسلمان کی نئی تعلیم و تربیت سے ہی دنیا فتح حاصل کرسکتی ہے

بانیٔ درس گاہ سر سید احمد خان سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے ای ٹی وی بھارت سے خصوصی گفتگو میں انہوں نے کہا کہ سر سید ایک شخص کا نام نہیں بلکہ ایک تحریک کا نام ہے۔ ایک فکر ہیں۔ ایک عظیم مصلح تھے۔ انہوں نے جدید ہندوستان کی تعمیر میں اہم رول ادا کیا، کیونکہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی پہلے بنی، پھر بنارس یونیورسٹی پھر جامعہ ملیہ یعنی ایک تحریک شروع ہوئی۔ سر سید نے اس زمانے میں محسوس کرلیا تھا کہ اس قوم کا تعلیم یافتہ ہونا ضروری ہے۔ اس دور میں انگریزوں کی حکومت تھی مسلمان شکست خوردہ تھا 1857 کے بعد حکومت مسلمانوں سے چھن گئی تھی، اس دور میں سر سید نے سوچا کہ اب اگر اس قوم کو پھر سے اپنا مقام حاصل کرنا ہے تو اس کو تعلیم یافتہ ہونا پڑے گا۔

انہوں نے کہا کہ سر سید کی بنائی ہوئی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں متعدد کورسز آج ایسے ہیں جو پہلے کبھی نہ تھے جیسے کہ پٹرولیم ،جیولوجی وغیرہ، انہوں نے کہا کہ اس سے محسوس ہوتا ہے کہ سر سید نے آج کے دور کی ضرورت کو اسی دور میں محسوس کرلیا تھا۔ اے ایم یو کے اقلیتی کردار سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میرا ہمیشہ سے کہنا ہے کہ اس حوالے سے جو بھی حکومت ہو اس کے سامنے اپنی بات رکھتے ہوئے گفتگو کی جائے، انہوں نے کہا اگر حکومت کے سامنے بات نہیں رکھی جائے گی تو، ادھر ادھر بات کرنے کا کوئی مطلب نہیں ہے، بات جہاں ہونی چاہیے وہاں کی جانی چاہیے، انہوں نے کہا فیصلہ لینے والوں سے بات کرنی چاہیے۔

وہیں انہوں نے بی جے پی اور مسلمانوں نے درمیان دوری کو کم کرنے کے متعلق سوال کے جواب میں کہا جو بھی حکومت میں ہو اس سے بات کرنی چاہیے، انہوں نے کہا حکومت لانے یا تبدیل کرنے کی طاقت میں ہم نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بی جے پی یا غیر بی جے پی جس کسی کی بھی حکومت ہے اس کے سامنے اپنے مسائل کو رکھا جانا چاہیے۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ مشکل یہ ہے کہ جو بھی ان سے ملتا ہے اس پر میر جعفر اور پتہ نہیں کون کون سے فتوے لگائے جاتے ہیں۔ وہیں ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر بی جے پی مسلمانوں کو ٹکٹ نہیں دیتی تو دوسرے بھی نہیں دیتے۔ بی جے پی ایک ٹکٹ نہیں دیتی تو وہیں دیگر پارٹیاں ووٹ کے ٹکڑے کے لیے ٹکٹ پھینکتے ہیں تو اس سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ ٹکٹ دینے یا نہ دینے کی بات نہیں ہے، حکومت جس کی بھی ہو اس کے سامنے اپنے مسائل کو رکھنا چاہیے وہیں انہوں نے کہا کہ 2024 کے انتخابات میں مسلمانوں کو بہت سنجیدگی، عقل مندی سے کام لینا چاہیے ۔مسلمان کو کسی پارٹی کا، پارٹی بننے کی ضرورت نہیں ہے، بند کمرے میں جا کر جیسے ووٹ دیا جاتا ہے بس وہی کرنا چاہیے شور شرابہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا مسلمان جن کو 90 ؍فیصد ووٹ دیتے وہ ٹکٹ دیتے ہیں اور پھر وقف، حج کمیٹی اور مردوں کی قبرستان کی وزارت ملتی ہے۔ وہیں انہوں نے کہا مسلمانوں کو اپنی سیاسی پارٹی کھڑی کرنے کی بات کو مسترد کریا ، انہوں نے کہا کہ مذہبی شناخت کی پارٹی نہیں چلے گی۔

ظفر سریش والا سے ای ٹی وی بھارت نے خصوصی گفتگو کی

علیگڑھ: بانی درسگاہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سرسید احمد خان کی 206ویں یوم پیدائش کے موقع پر جشن یوم سر سید تقریبات کا اہتمام عالمی شہرت یافتہ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی میں بڑی ہی شان و شوکت عزت و احترام سے کیا جاتا ہے۔ یونیورسٹی کے 22 اقامتی ہالوں میں بھی تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے، جس میں مہمان خصوصی اور اعزازی بھی ہوتے ہیں۔ اے ایم یو کے سب سے بڑے ہال 'غیر رہائشی طلباء کا مرکز' (این آر ایس سی) میں جشن یوم سر سید تقریب کی صدارت کرتے ہوئے ظفر سریش والا (سابق چانسلر مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدرآباد) نے تقریب میں طلباء کی تعداد ان کے جوش و جذبے کو دیکھ کر متاثر ہوتے ہوئے کہا کہ 'بیداری دیکھ کر خوشی ہوئی، قوم زندہ ہے بس اس کو ڈائریکشن کی ضرورت ہے۔'

یہ بھی پڑھیں:

Zafar Sareshwala مسلمان کی نئی تعلیم و تربیت سے ہی دنیا فتح حاصل کرسکتی ہے

بانیٔ درس گاہ سر سید احمد خان سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے ای ٹی وی بھارت سے خصوصی گفتگو میں انہوں نے کہا کہ سر سید ایک شخص کا نام نہیں بلکہ ایک تحریک کا نام ہے۔ ایک فکر ہیں۔ ایک عظیم مصلح تھے۔ انہوں نے جدید ہندوستان کی تعمیر میں اہم رول ادا کیا، کیونکہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی پہلے بنی، پھر بنارس یونیورسٹی پھر جامعہ ملیہ یعنی ایک تحریک شروع ہوئی۔ سر سید نے اس زمانے میں محسوس کرلیا تھا کہ اس قوم کا تعلیم یافتہ ہونا ضروری ہے۔ اس دور میں انگریزوں کی حکومت تھی مسلمان شکست خوردہ تھا 1857 کے بعد حکومت مسلمانوں سے چھن گئی تھی، اس دور میں سر سید نے سوچا کہ اب اگر اس قوم کو پھر سے اپنا مقام حاصل کرنا ہے تو اس کو تعلیم یافتہ ہونا پڑے گا۔

انہوں نے کہا کہ سر سید کی بنائی ہوئی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں متعدد کورسز آج ایسے ہیں جو پہلے کبھی نہ تھے جیسے کہ پٹرولیم ،جیولوجی وغیرہ، انہوں نے کہا کہ اس سے محسوس ہوتا ہے کہ سر سید نے آج کے دور کی ضرورت کو اسی دور میں محسوس کرلیا تھا۔ اے ایم یو کے اقلیتی کردار سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میرا ہمیشہ سے کہنا ہے کہ اس حوالے سے جو بھی حکومت ہو اس کے سامنے اپنی بات رکھتے ہوئے گفتگو کی جائے، انہوں نے کہا اگر حکومت کے سامنے بات نہیں رکھی جائے گی تو، ادھر ادھر بات کرنے کا کوئی مطلب نہیں ہے، بات جہاں ہونی چاہیے وہاں کی جانی چاہیے، انہوں نے کہا فیصلہ لینے والوں سے بات کرنی چاہیے۔

وہیں انہوں نے بی جے پی اور مسلمانوں نے درمیان دوری کو کم کرنے کے متعلق سوال کے جواب میں کہا جو بھی حکومت میں ہو اس سے بات کرنی چاہیے، انہوں نے کہا حکومت لانے یا تبدیل کرنے کی طاقت میں ہم نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بی جے پی یا غیر بی جے پی جس کسی کی بھی حکومت ہے اس کے سامنے اپنے مسائل کو رکھا جانا چاہیے۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ مشکل یہ ہے کہ جو بھی ان سے ملتا ہے اس پر میر جعفر اور پتہ نہیں کون کون سے فتوے لگائے جاتے ہیں۔ وہیں ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر بی جے پی مسلمانوں کو ٹکٹ نہیں دیتی تو دوسرے بھی نہیں دیتے۔ بی جے پی ایک ٹکٹ نہیں دیتی تو وہیں دیگر پارٹیاں ووٹ کے ٹکڑے کے لیے ٹکٹ پھینکتے ہیں تو اس سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ ٹکٹ دینے یا نہ دینے کی بات نہیں ہے، حکومت جس کی بھی ہو اس کے سامنے اپنے مسائل کو رکھنا چاہیے وہیں انہوں نے کہا کہ 2024 کے انتخابات میں مسلمانوں کو بہت سنجیدگی، عقل مندی سے کام لینا چاہیے ۔مسلمان کو کسی پارٹی کا، پارٹی بننے کی ضرورت نہیں ہے، بند کمرے میں جا کر جیسے ووٹ دیا جاتا ہے بس وہی کرنا چاہیے شور شرابہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا مسلمان جن کو 90 ؍فیصد ووٹ دیتے وہ ٹکٹ دیتے ہیں اور پھر وقف، حج کمیٹی اور مردوں کی قبرستان کی وزارت ملتی ہے۔ وہیں انہوں نے کہا مسلمانوں کو اپنی سیاسی پارٹی کھڑی کرنے کی بات کو مسترد کریا ، انہوں نے کہا کہ مذہبی شناخت کی پارٹی نہیں چلے گی۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.