ٹی این شریواستو نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ 2006 میں پہلی بار ان کا شری مد بھگوت گیتا کا منظوم ترجمہ منظر عام پر آیا۔ انہوں نے بتایا کہ بھگوت گیتا کا اردو زبان میں ترجمہ کرنے کا خیال اس لئے آیا چونکہ اردو داں طبقے میں زیادہ تر لوگ سنسکرت زبان سے نابلد ہوتے ہیں۔ ایسے میں میں ضرورت اس بات کی تھی اردو زبان میں ترجمہ کیا جائے جس سے ہر کوئی فائدہ حاصل کر سکے۔
انہوں نے بتایا کہ یوں تو ترجمہ نگاری کا فن بہت مشکل ہے اور جب منظوم ترجمہ کرنا ہو تو یہ کام مشکل ترین ہو جاتا ہے۔ بعض دفعہ ایسا ہوا ہے کہ سنسکرت کے الفاظ اردو میں نہیں ملتے تھے۔ شب و روز غور و فکر کرنے کے باوجود اگر کوئی لفظ ملتا تھا تو وہ رباعی قافیے پر منطبق نہیں بیٹھتا تھا۔ اس لئے بہت مشکلات کے بعد یہ کام مکمل ہوا اور عوامی حلقے میں کافی پذیرائی ہوئی۔
ٹی این سریواستو بنارس میں ان اردو محبین میں شمار کیے جاتے ہیں جنہوں نے زبان کو مذہبی خانوں میں تقسیم نہ کر اسے پورے شدومد کے ساتھ نہ صرف سیکھا ہے بلکہ کئی کتابیں اردو زبان میں تصنیف کی ہیں جن میں سے اب تک اردو ہندی میں 10کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔
ان کا پہلا شعری مجموعہ گلپاش نے عوامی سطح پر خوب پذیرائی حاصل کی تھی اس کے بعد یہ سلسلہ جاری رہا۔ یوں تو بھگوت گیتا کا منظوم ترجمہ اس سے قبل شان الحق حقی کا منظر عام پر آ چکا ہے۔ تاہم ٹی این سریواستو نے شریمد بھگوت گیتا کا اٹھارہ ابواب کا اردو میں منظوم ترجمہ کر کے اردو ادب کے لیے ایک بیش بہا سرمایہ پیش کیا ہے۔
ان کے ترجمے کی خاص بات یہ ہے کہ ایک صفحے پر گیتا شلوک تو دوسرے صفحے پر اردو زبان میں اس کا منظوم ترجمہ ہے۔ زبان سلیس اور صاف ہے۔ بیشتر مقامات پر ہندی کے مشکل الفاظ ہیں جن کو سمجھنا مشکل ہے اس کے لیے ہر باب کے آخر میں فرہنگ مرتب کیا ہے جس سے قاری کو متن سمجھنے میں آسانی ہوگی۔
اس حوالے سے بنارس کے معروف شاعر و ارتقاء سہ ماہی کے ایڈیٹر شاد عباسی نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ٹی این سریواستو نے بھگود گیتا کا اردو زبان میں منظوم ترجمہ کر کے اردو ادب کو قیمتی سرمایہ عطا کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ مذہبی و ادبی نقطہ نظر سے نئی نسل کے لیے بیش بہا خزانہ ہے۔
مزید پڑھیں: عامر خان اور کرن راؤ کے رشتہ پر ایک نظر
ٹی این سریواستو کے ذریعے بھگوت گیتا کے اردو زبان میں منظوم ترجمہ سے اردو ادبی حلقے نے ان کے اس قدم کی ستائش کی۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ یہ مذہبی و ادبی نقطہ نظر سے نئی نسل کے لیے بیش بہا خزانہ ہے۔