موجودہ دور کی سیاست کو دیکھتے ہوئے جمعیت علماء ہند نے ملک کو بچانے کے لئے کمر کس لی ہے، اسی سلسلے میں اب جمعیت علماء ہند مدارس کے طلباء کو جدید تعلیم کمپیوٹر اور سائنس کی تعلیم سے آراستہ کر رہی ہے ۔کانپور میں حق ایجوکیشن اینڈ ریسرچ فاؤنڈیشن مدارس سے فارغ طلبہ کو دو سال کا کمپیوٹر اور سائنس اور انگریزی کی تعلیم کا کورس کراتا ہے، حق ایجوکیشن اینڈ ریسرچ فاؤنڈیشن اور جمعیت علماء ہند کانپور یونٹ نے مل کر کانپور میں مدارس کے طلبہ کے لئے دو روزہ ورکشاپ کا انعقاد کیا۔
حق ایجوکیشن اینڈ ریسرچ فاؤنڈیشن کے چیئرمین مفتی عبد الرشید قاسمی نے گفتگو کرتے ہوئے دستور ہند اوراسلامی رہنمائی، مسلم دور حکومت میں ہندو مسلم باہمی معاشرت اور اسلام اور موجودہ سیاست کے تعلق سے تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے حاضرین کے ذہنوں کو صاف کیا۔ آئی آئی ٹی ممبئی کے سابق سینئر میڈیکل آفیسر پروفیسر ڈاکٹر رام پنیانی نے مسلم دور حکومت میں ہندو مسلم باہمی معاشرت پربات کرتے ہوئے کہا کہ نفرت کا ماحول بنانا سیاست دانوں کا مفاد ہے اوراس کے لئے وہ تاریخ کا ایک مسخ شدہ روپ پیش کرتے ہیں، تاریخ کو دیکھنے کا یہ طریقہ انگریزوں نے 1857کی تحریک آزادی کے بعد منصوبہ بند طریقہ سے پھیلایا۔
انہوں نے اس نظریہ کا تجزیہ کرتے ہوئے بتایا کہ حکمرانوں کے بیچ سیاسی مفادات کیلئے ہونے والی لڑائیوں کو انگریزوں نے مذہبی رنگ دے دیا۔ مگر خود ان حکمرانوں کی تاریخ بتلاتی ہے کہ مسلم حکمرانوں کے ساتھ بڑے پیمانے پر ہندو وزراء اور سپہ سالار نیز ہندو حکمرانوں کے ساتھ بڑے پیمانے پر مسلم وزراء اور سپہ سالار موجود تھے۔ اسی کے ساتھ ساتھ انہوں نے خاص طور پر بتلایا کہ اورنگزیب کی فوج میں جنرل راجہ جے سنگھ اور شیوا جی کے کانفیڈینشیل سکریٹری مولانا حیدر علی تھے۔ اورنگزیب کے دربار میں ہندو اہلکاروں کا تناسب 34فیصد تھا۔ اسلام کےفروغ کے پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سب سے پہلے کیرل میں عرب تاجروں سے میل جول کے نتیجے میں لوگوں نے اسلام قبول کیا اور ہندوستان کے اکثر حصوں میں ذات ت پات کے نظام سے بچنے کیلئے لوگ خود اپنی رضامندی سے مسلمان بنے۔ انہوں نے کئی مثالوں سے سمجھایا کہ ہندوستان کی ثقافت،زبان اور لٹریچر ہمیشہ سے ایک مشترک وراثت رہی ہے۔
مسلم دور حکومت میں ہندو مسلم باہمی معاشرت پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انسانوں کے ساتھ بغیر بھید بھاؤ کے اچھا برتاؤ کرنا شریعت کی تعلیم ہے، اور مسلم حکمرانوں نے مجموعی طور پر غیر مسلموں کے ساتھ بہترین برتاؤ کیا۔ اس سلسلے میں انہوں نے طلبا کو مطالعے کے لیے اردو، ہندی اور انگریزی میں اہم کتابوں کے نام لکھوائے۔
انہوں نے بتایا کہ مشہور سیاح البیرونی نے مسلم حکمرانی والے ہندوستان میں مذہبی رواداری کو بہت اہمیت سے بیان کیا ہے۔ انہوں نے بتلایا کہ دراصل1857کے بعد انگریزوں نے ہندو مسلم تفریق کو اپنی پالیسی بنا لیا، اور اس سلسلے میں کچھ پڑھے لکھے مصنفین کو وظیفے دے کر مسلم دور حکومت کی تاریخ مسخ کرنے کے کام پر لگایا اور انہیں اعزازات سے نوازا، اس سلسلے میں انہوں نے خاص طور پر ذکر کیا کہ تاریخ میں 1857سے پہلے کوئی ہندو مسلم فساد نہیں دکھایا جا سکتا۔ مندر توڑنے کے جو الزام لگائے جاتے ہیں، مولانا نے تاریخی حوالوں کی روشنی میں تفصیل سے بتایا کہ کچھ لوگوں نے عبادت گاہوں کو اغواء، آبروریزی، قتل و غارت گری اور بغاوت کا مرکز بنا لیا تھا، صرف ایسے ہی حالات میں ایسی کارروائی کی۔