ETV Bharat / state

'جب اہل خانہ ہی لڑکیوں کے ساتھ امتیاز کریں گے تو غیروں سے کیا توقع کی جائے'

ریاست اترپردیش میں آئے دن لڑکیوں اور خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کے معاملات سامنے آرہے ہیں جس سے نہ صرف حکومت کو تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے بلکہ سماجی کارکنان اور عوام بھی مشتعل ہیں۔

social worker iram khan
سماجی کارکن ارم خان
author img

By

Published : Oct 10, 2020, 9:00 AM IST

خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی سماجی کارکن ارم خان نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اترپردیش میں خواتین اور لڑکیوں کی تعلیم، صحت و تحفظ اہم مسئلہ ہے۔ حکومت ان مسائل سے متعلق دعویٰ کرتی ہے لیکن زمینی حقائق اس کے بر عکس ہیں۔

ارم نے بتایا کہ 'فیس بک پر ایک لڑکا انہیں فحش میسیجز کرتا تھا۔ ان کی تصویر ایڈیٹ کر کے فحش ویب سائٹس پر ڈالنے کی دھمکی دیا کرتا تھا۔ یہاں تک کہ اس لڑکے نے جنسی زیادتی کی بھی دھمکی دی۔'

ارم خان بتاتی ہیں کہ اس مسئلے کو جب پولیس اسٹیشن میں رپورٹ کرنے گئی تو مختلف پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ پولیس اہلکار تفتیش کے نام پر بے جا سوالات پوچھتے ہیں۔ شکایت کرنے پر پولیس اہلکار یہ ذہن بنا لیتے ہیں کہ لڑکی کے پہلے سے روابط ہوں گے۔ اس طرح سے لڑکیوں کو پولیس اسٹیشنز میں ہراساں کیا جاتا ہے جب خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی کے ساتھ اس نوعیت کے واقعات سامنے آرہے ہیں تو عام لڑکیوں کے ساتھ کس طرح کے حالات ہوں گے۔

سماجی کارکن ارم خان سے خصوصی بات چیت

ارم خان نے کہا کہ لڑکیوں کو مختلف مقامات پر ہراساں کیا جاتا ہے جن میں آفس، پبلک ٹرانسپورٹ، بازار، مذہبی مقامات شامل ہیں۔ انہوں نے اپنا واقعہ بتاتے ہوئے کہا کہ ایک بار بس میں دوران سفر ایک پولیس اہلکار ان کے کندھے پر بار بار ہاتھ رکھ رہا تھا جس کے بعد ان کو عجیب کیفیت کا احساس ہوا۔ انہوں نے اس وقت خواتین کے تحفظ کے قانون کی کتاب ہاتھ میں لیے ہوئے تھیں اور اس کو ہاتھ رکھ پڑھنے لگی، اس کے بعد وہ پولیس اہلکار باز آیا۔ اس طرح کے واقعات کا باہر نکلنے والی بیشتر لڑکیوں کو سامنا کرنا پڑتا ہے جس کا ذمہ دار کہیں نہ کہیں سماج اور مردانہ سوچ ہے۔

انہوں نے کہا کہ لڑکیوں کو مختلف مرحلے میں جنسی امتیاز کا سامنا ہوتا ہے۔ پہلے حملے میں اسے جسنی امتیاز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ابھی بھی لڑکی کو قبل از ولادت مار دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد تعلیم کے معاملے میں جنسی امتیاز کا سامنا ہوتا ہے۔ ریاست اتر پردیش کے مختلف اضلاع کا دورہ کیا جس کے سرکاری اسکولوں میں لڑکیوں کی تعداد زیادہ تھی جبکہ لڑکے کو اعلیٰ نجی تعلیمی ادارے میں تعلیم دی جاتی ہے۔ اس کے بعد بیشتر ریپ کے کیس سماج کے خوف سے درج ہی نہیں ہوتے ہیں۔

سماجی کارکن نے کہا کہ 'جب اہل خانہ ہی لڑکیوں کے ساتھ امتیاز کریں گے تو غیروں سے کیا توقع کی جائے لہذا ضرورت ہے اس بات کی کہ حکومت سماج اور گھر والے لڑکیوں کی تعلیم و صحت اور تحفظ پر سنجیدگی کا مظاہرہ کریں ورنہ لڑکیوں کے ساتھ درندگی ہوتی رہے گی اور سب تماشائی بنے رہیں گے۔'

خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی سماجی کارکن ارم خان نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اترپردیش میں خواتین اور لڑکیوں کی تعلیم، صحت و تحفظ اہم مسئلہ ہے۔ حکومت ان مسائل سے متعلق دعویٰ کرتی ہے لیکن زمینی حقائق اس کے بر عکس ہیں۔

ارم نے بتایا کہ 'فیس بک پر ایک لڑکا انہیں فحش میسیجز کرتا تھا۔ ان کی تصویر ایڈیٹ کر کے فحش ویب سائٹس پر ڈالنے کی دھمکی دیا کرتا تھا۔ یہاں تک کہ اس لڑکے نے جنسی زیادتی کی بھی دھمکی دی۔'

ارم خان بتاتی ہیں کہ اس مسئلے کو جب پولیس اسٹیشن میں رپورٹ کرنے گئی تو مختلف پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ پولیس اہلکار تفتیش کے نام پر بے جا سوالات پوچھتے ہیں۔ شکایت کرنے پر پولیس اہلکار یہ ذہن بنا لیتے ہیں کہ لڑکی کے پہلے سے روابط ہوں گے۔ اس طرح سے لڑکیوں کو پولیس اسٹیشنز میں ہراساں کیا جاتا ہے جب خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی کے ساتھ اس نوعیت کے واقعات سامنے آرہے ہیں تو عام لڑکیوں کے ساتھ کس طرح کے حالات ہوں گے۔

سماجی کارکن ارم خان سے خصوصی بات چیت

ارم خان نے کہا کہ لڑکیوں کو مختلف مقامات پر ہراساں کیا جاتا ہے جن میں آفس، پبلک ٹرانسپورٹ، بازار، مذہبی مقامات شامل ہیں۔ انہوں نے اپنا واقعہ بتاتے ہوئے کہا کہ ایک بار بس میں دوران سفر ایک پولیس اہلکار ان کے کندھے پر بار بار ہاتھ رکھ رہا تھا جس کے بعد ان کو عجیب کیفیت کا احساس ہوا۔ انہوں نے اس وقت خواتین کے تحفظ کے قانون کی کتاب ہاتھ میں لیے ہوئے تھیں اور اس کو ہاتھ رکھ پڑھنے لگی، اس کے بعد وہ پولیس اہلکار باز آیا۔ اس طرح کے واقعات کا باہر نکلنے والی بیشتر لڑکیوں کو سامنا کرنا پڑتا ہے جس کا ذمہ دار کہیں نہ کہیں سماج اور مردانہ سوچ ہے۔

انہوں نے کہا کہ لڑکیوں کو مختلف مرحلے میں جنسی امتیاز کا سامنا ہوتا ہے۔ پہلے حملے میں اسے جسنی امتیاز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ابھی بھی لڑکی کو قبل از ولادت مار دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد تعلیم کے معاملے میں جنسی امتیاز کا سامنا ہوتا ہے۔ ریاست اتر پردیش کے مختلف اضلاع کا دورہ کیا جس کے سرکاری اسکولوں میں لڑکیوں کی تعداد زیادہ تھی جبکہ لڑکے کو اعلیٰ نجی تعلیمی ادارے میں تعلیم دی جاتی ہے۔ اس کے بعد بیشتر ریپ کے کیس سماج کے خوف سے درج ہی نہیں ہوتے ہیں۔

سماجی کارکن نے کہا کہ 'جب اہل خانہ ہی لڑکیوں کے ساتھ امتیاز کریں گے تو غیروں سے کیا توقع کی جائے لہذا ضرورت ہے اس بات کی کہ حکومت سماج اور گھر والے لڑکیوں کی تعلیم و صحت اور تحفظ پر سنجیدگی کا مظاہرہ کریں ورنہ لڑکیوں کے ساتھ درندگی ہوتی رہے گی اور سب تماشائی بنے رہیں گے۔'

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.