ETV Bharat / state

Aligarh Muslim University اے ایم یو کی سو سالہ تاریخ میں خاتون وائس چانسلر کیوں نہیں۔۔؟

عالمی شہرت یافتہ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ 1920 میں اس کی پہلی چانسلر بیگم سلطان جہاں کو بنایا گیا باوجود اس کے گزشتہ سو سالوں میں کسی خاتون کو دوبارہ چانسلر یا وائس چانسلر نہیں بنایا گیا جبکہ اے ایم یو ملک کا واحد تعلیمی ادارہ ہے جس کو اپنے وائس چانسلر کے لئے پینل بنانے کا حق حاصل ہے۔

Etv Bharat
Etv Bharat
author img

By

Published : Apr 11, 2023, 10:27 AM IST

اے ایم یو کی سو سالہ تاریخ میں خاتون وائس چانسلر کیوں نہیں۔۔؟

علیگڑھ: دور جدید خواتین کی شمولیت کے بغیر ترقی نہیں کرسکتا کیوں کہ ایسا مانا جاتا ہے کہ بااختیار خاتون نسل نو کو تربیت دیتی ہیں اور جدید معاشرہ میں خواتین کی خود مختاری اور بااختیاری کو حق مانا جاتا ہے اور اسلام نے بھی خاتون کو بااختیار مانا ہے جس کی زندہ مثال حضرت خدیجہ کی شکل میں با اختیار بزنس وومن کا ماڈل ہے وہیں دوسری جانب حکومت ہند نے بھی خاتون کو بااختیار بنانے کا بیڑہ اٹھایا ہے۔ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی نے روز اول سے ہی خواتین کو تعلیم یافتہ بنانے کا خیال رکھا ہے۔ سنہ 1906 میں ضلع علی گڑھ میں پہلا ادارہ اپر فورٹ علاقے میں چھہ طالبات کے ساتھ 'بالائے قلعہ' کے نام سے قائم کیا جو آج اے ایم یو ویمنس کالج کے نام سے مشہور ہیں جہاں بیرونی ممالک سمیت تین ہزار سے زیادہ طالبات زیر تعلیم ہیں اور جو خواتین کو تعلیم یافتہ اور بااختیار بنانے میں ایک اہم رول ادا کر رہا ہے۔

اے ایم کو یہ امتیاز بھی حاصل ہے کہ 1920 میں سلطان جہاں بیگم کو پہلی وائس چانسلر بنایا گیا پھر اس کے بعد سے آج تک دوبارہ کسی خاتون کو چانسلر، پرو چانسلر اور نا ہی وائس چانسلر بنایا گیا جبکہ اے ایم یو ملک کا واحد تعلیمی ادارہ ہے جس کو اپنے وائس چانسلر کے پینل بنانے کا حق حاصل ہے۔ اسی صورتحال میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پہلی خاتون چانسلر کے بعد آج تک کسی خاتون کو دوبارہ چانسلر اور 103 سالوں میں کسی خاتون کو یونیورسٹی نے اپنا وائس چانسلر کیو نہیں بنایا ؟ کیا یونیورسٹی خود ہی نہیں چاہتی کہ کوئی خاتون اے ایم یو کی وائس چانسلر بنے۔۔۔؟ طارق منصور کے اے ایم یو وائس چانسلر کے عہدے سے استعفی کے بعد سے ہی یونیورسٹی کیمپس میں اگلے وائس چانسلر کی چرچہ گرم ہو گئی ہیں اس بار کسی خاتون کو وائس چانسلر بنانے کی بھی بات کی جارہی ہیں۔ کچھ ماہ قبل ایک پروگرام کے دوران خاتون وائس چانسلر سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے اے ایم یو کی پروفیسر نے بتایا کہ دور جدید میں خاتون ہر میدان میں آگے ہیں ہم خواتین اپنے گھر اور دفتر کو دیکھتے ہیں تو ہم ایک اچھی ایڈمنسٹریٹر بھی ہو سکتی ہیں اور آج جب ملک کی دیگر یونیورسٹیوں کی وائس چانسلر خواتین بن سکتی ہیں تو اے ایم یو کی بھی وائس چانسلر خاتون بن سکتی ہے۔

سوال کا جواب دیتے ہوئے بتایا کہ گزشتہ سو سالوں میں خاتون وائس چانسلر نہیں بننے کی وجہ کچھ بھی ہو سکتی ہے لیکن اگر آج خواتین وائس چانسلر بننا چاہتی ہیں تو بننا چاہیے ہم اس کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ اے ایم یو ویمنس کالج کی طالبہ نے خواہش ظاہر کرتے ہوئے کہا اگر خواتین کو بااختیار بنانے کی بات کریں تو اے ایم یو کی وائس چانسلر خاتون بننا چاہیے کیوں کچھ تبدیلی بھی ضروری ہے۔ اگر اے ایم یو ایگزیکٹو کونسل اور کورٹ کے اراکین اگلے وائس چانسلر کے پینل میں کسی خاتون کا نام شامل کریں تو خاتون وائس چانسلر بننے کے امکانات زیادہ ہونگے کیونکہ پینل کے نام میں سے ہی کسی ایک کا انتخاب صدر جمہوریہ کرتا ہے۔ اے ایم یو وائس چانسلر بننے کے لئے کسی بھی استاد کے پاس دس سال کا پروفیسر شپ کا تجربہ لازمی ہے۔

یہ بھی پڑھیں : AMU Student Celebration اے ایم یو وائس چانسلر کا استعفیٰ، طلباء نے 'یوم نجات' منایا

اے ایم یو کی سو سالہ تاریخ میں خاتون وائس چانسلر کیوں نہیں۔۔؟

علیگڑھ: دور جدید خواتین کی شمولیت کے بغیر ترقی نہیں کرسکتا کیوں کہ ایسا مانا جاتا ہے کہ بااختیار خاتون نسل نو کو تربیت دیتی ہیں اور جدید معاشرہ میں خواتین کی خود مختاری اور بااختیاری کو حق مانا جاتا ہے اور اسلام نے بھی خاتون کو بااختیار مانا ہے جس کی زندہ مثال حضرت خدیجہ کی شکل میں با اختیار بزنس وومن کا ماڈل ہے وہیں دوسری جانب حکومت ہند نے بھی خاتون کو بااختیار بنانے کا بیڑہ اٹھایا ہے۔ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی نے روز اول سے ہی خواتین کو تعلیم یافتہ بنانے کا خیال رکھا ہے۔ سنہ 1906 میں ضلع علی گڑھ میں پہلا ادارہ اپر فورٹ علاقے میں چھہ طالبات کے ساتھ 'بالائے قلعہ' کے نام سے قائم کیا جو آج اے ایم یو ویمنس کالج کے نام سے مشہور ہیں جہاں بیرونی ممالک سمیت تین ہزار سے زیادہ طالبات زیر تعلیم ہیں اور جو خواتین کو تعلیم یافتہ اور بااختیار بنانے میں ایک اہم رول ادا کر رہا ہے۔

اے ایم کو یہ امتیاز بھی حاصل ہے کہ 1920 میں سلطان جہاں بیگم کو پہلی وائس چانسلر بنایا گیا پھر اس کے بعد سے آج تک دوبارہ کسی خاتون کو چانسلر، پرو چانسلر اور نا ہی وائس چانسلر بنایا گیا جبکہ اے ایم یو ملک کا واحد تعلیمی ادارہ ہے جس کو اپنے وائس چانسلر کے پینل بنانے کا حق حاصل ہے۔ اسی صورتحال میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پہلی خاتون چانسلر کے بعد آج تک کسی خاتون کو دوبارہ چانسلر اور 103 سالوں میں کسی خاتون کو یونیورسٹی نے اپنا وائس چانسلر کیو نہیں بنایا ؟ کیا یونیورسٹی خود ہی نہیں چاہتی کہ کوئی خاتون اے ایم یو کی وائس چانسلر بنے۔۔۔؟ طارق منصور کے اے ایم یو وائس چانسلر کے عہدے سے استعفی کے بعد سے ہی یونیورسٹی کیمپس میں اگلے وائس چانسلر کی چرچہ گرم ہو گئی ہیں اس بار کسی خاتون کو وائس چانسلر بنانے کی بھی بات کی جارہی ہیں۔ کچھ ماہ قبل ایک پروگرام کے دوران خاتون وائس چانسلر سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے اے ایم یو کی پروفیسر نے بتایا کہ دور جدید میں خاتون ہر میدان میں آگے ہیں ہم خواتین اپنے گھر اور دفتر کو دیکھتے ہیں تو ہم ایک اچھی ایڈمنسٹریٹر بھی ہو سکتی ہیں اور آج جب ملک کی دیگر یونیورسٹیوں کی وائس چانسلر خواتین بن سکتی ہیں تو اے ایم یو کی بھی وائس چانسلر خاتون بن سکتی ہے۔

سوال کا جواب دیتے ہوئے بتایا کہ گزشتہ سو سالوں میں خاتون وائس چانسلر نہیں بننے کی وجہ کچھ بھی ہو سکتی ہے لیکن اگر آج خواتین وائس چانسلر بننا چاہتی ہیں تو بننا چاہیے ہم اس کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ اے ایم یو ویمنس کالج کی طالبہ نے خواہش ظاہر کرتے ہوئے کہا اگر خواتین کو بااختیار بنانے کی بات کریں تو اے ایم یو کی وائس چانسلر خاتون بننا چاہیے کیوں کچھ تبدیلی بھی ضروری ہے۔ اگر اے ایم یو ایگزیکٹو کونسل اور کورٹ کے اراکین اگلے وائس چانسلر کے پینل میں کسی خاتون کا نام شامل کریں تو خاتون وائس چانسلر بننے کے امکانات زیادہ ہونگے کیونکہ پینل کے نام میں سے ہی کسی ایک کا انتخاب صدر جمہوریہ کرتا ہے۔ اے ایم یو وائس چانسلر بننے کے لئے کسی بھی استاد کے پاس دس سال کا پروفیسر شپ کا تجربہ لازمی ہے۔

یہ بھی پڑھیں : AMU Student Celebration اے ایم یو وائس چانسلر کا استعفیٰ، طلباء نے 'یوم نجات' منایا

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.