سنہ 1905 میں سودیسی تحریک کا آغاز ہوا تھا جس کا مقصد ہینڈ لوم صنعت کے تئیں لوگوں میں بڑے پیمانے پر بیداری پیدا کرنا اور سماجی اقتصادی ترقی میں اس کے تعاون کو اجاگر کرنا تھا۔
اُس وقت شہریوں کو ہینڈلوم صنعت سے جوڑا گیا اور ملک میں بڑے پیمانے پر ہینڈلوم صنعت کو فروغ ملا، جس سے ملک کی معاشی صورتحال میں بہتری آئی، ساتھ ہی عوام کو روزگار کے مواقع بھی حاصل ہوئے۔ لیکن اب رفتہ رفتہ اس صنعت پر نہ ہی حکومت سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہی ہے اور نہ ہی بازار میں اس کی مصنوعات کو پذیرائی حاصل ہورہی ہے جس کہ وجہ سے اب یہ صنعت روبہ زوال ہے۔
بنارس کے رہنے والے اقبال انصاری نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ ایک زمانہ تھا کہ جب ہینڈ لوم صنعت سے بنارس کے لاکھوں لوگ وابستہ تھے اور بہترین بنارسی ساڑی تیار کرتے تھے جس پر حکومت بھی سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہی تھی، ساتھ ہی اس صنعت سے کثیر تعداد میں روزگار بھی فراہم ہوتا تھا لیکن اب یہ صنعت رو بہ زوال ہے، لوگ پاور لوم کی جانب راغب ہو گئے۔
اقبال انصاری بتاتے ہیں کہ موجودہ دور میں بنارس میں 10 فیصد ہی ہینڈلوم بچے ہیں، امید کی جارہی ہے کہ مستقبل قریب میں اس کی تعداد اور کم ہو جائے گی۔ اس کی سب اہم وجہ یہ ہے کہ اس صنعت میں مناسب مزدوری نہیں مل پاتی اور نہ ہی ساڑی کی قیمت میں کوئی اضافہ ہورہا ہے۔ اس صنعت سے وابستہ بیشتر افراد عدم خواندگی کے شکار ہیں۔
اقبال بتاتے ہیں کہ بچپن سے ہی اس کام کو سیکھنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے تعلیم کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے۔ اب نوجوان نہ اس کام کو سیکھنا چاہتے ہیں اور نہ ہی اس میں کوئی منافع ہے، یہی وجہ ہے کہ بیشتر گھروں سے ہینڈ لوم غائب ہوچکا ہے۔
مزید پڑھیے: بنکرز نوجوان اپنے روایتی پیشہ سے کیوں علیحدگی اختیار کر رہے ہیں؟
بنارس کے للا پورہ علاقہ کے رہنے والے عظمت بتاتے ہیں کہ ہینڈلوم صنعت کی جانب حکومت کی کوئی توجہ نہیں ہے نہ ہی اس کے کاریگر کو مناسب مزدوری ملتی ہے اور نہ ہی حکومت کی جانب سے مالی امداد ملتی ہے جس سے مایوس بنکر اس صنعت سے علیحدگی اختیار کررہا ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ حکومت اگرچہ مختلف اسکیم کا اعلان کرتی ہے لیکن ہینڈلوم کاریگر کو اس کا کوئی فائدہ نہیں ملتا، سب اعلی عہدیدار ہی کھا جاتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ حکومت نے کبھی اس کا سروے نہیں کرایا جس سے زمینی حقائق اجاگر ہوسکیں۔