ETV Bharat / state

Lok Sabha Election 2024 یوپی بلدیاتی انتخابات کے تنائج کا لوک سبھا انتخابات پر کتنا اثر ہوگا؟

ماہرین مانتے ہیں کی بلدیاتی انتخابات میں بی جے پی کو بڑی جیت حاصل ہوئی ہے جس میں وزیر اعلی کی شبیہ مضبوط ہوئی ہے لیکن اس انتخابات سے 2024 کے پارلیمانی انتخابات کو قیاس کرنا بالکل بے بنیاد ہے۔ ماہرین یہ بھی مانتے ہیں کہ 2024 کے انتخابات میں اگر مسلم ووٹ میں بکھراؤ نہیں ہوا اور سیکولر جماعتوں نے اتحاد کیا تو بی جے پی کو شکست بھی ہو سکتی ہے۔

یوپی بلدیاتی انتخابات کے تنائج کا لوک سبھا انتخابات پر کتنا اثر ہوگا؟
یوپی بلدیاتی انتخابات کے تنائج کا لوک سبھا انتخابات پر کتنا اثر ہوگا؟
author img

By

Published : May 15, 2023, 5:23 PM IST

Updated : May 15, 2023, 7:32 PM IST

یوپی بلدیاتی انتخابات کے تنائج کا لوک سبھا انتخابات پر کتنا اثر ہوگا؟

لکھنؤ: اتر پردیش میں بلدیاتی انتخابات کے نتائج کا اعلان ہو چکا ہے۔ بی جے پی کو بڑی جیت حاصل ہوئی ہے۔ وہیں کانگریس پارٹی اور بی ایس پی اور اے آئی ایم ائی ایم نے بھی بہتر مظاہرہ کیا ہے جب کہ سماجوادی پارٹی کو 2017 کے مقابلے میں ووٹ فیصد میں کافی گراوٹ درج کی گئی ہے۔ ماہرین مانتے ہیں کہ 2024 میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں یوپی بلدی انتخابات کے نتائج کافی کارگر ثابت ہوں گے۔ ایک طرف جہاں بی جے پی نے زبردست جیت حاصل کی تو وہیں دوسری جانب وزیر اعلی نے اپنی شبیہہ مضبوط کی ہے۔ بی جے پی کے جیت کے پیچھے مسلم ووٹوں میں بکھراؤ اہم وجہ مانی جارہی ہے۔ بی جے پی مخالف ووٹوں کے تقسیم سے 17 میئر کے عہدے پر قابض رہی جبکہ دیگر کسی سیاسی جماعت کا کھاتہ بھی نہیں کھلا۔

کانگریس پارٹی اقلیتی سیل کے ریاستی صدر شہنواز عالم نے ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ بلدیاتی انتخابات کے نتائج کا اگر تجزیہ کریں گے تو کانگریس پارٹی کا بہترین مظاہرہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مرادآباد میں میئر کے عہدے کے لیے کانگریس امیدوار رضوان قریشی کو صرف چار ہزار ووٹوں سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اتنا ہی نہیں مسلم اکثریتی علاقوں میں کانگریس کا بہترین مظاہرہ رہا۔

انہوں نے کہا کہ ایک طرف جہاں سماج وادی پارٹی کو 2022 کے اسمبلی انتخابات میں مسلمانوں نے 95 فیصد ووٹ دیا تھا لیکن بلدیہ انتخابات میں مسلمانوں نے سماج وادی پارٹی سے منہ موڑ لیا یہی وجہ ہے کہ اکثر و بیشتر جگہ پر سماجوادی پارٹی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ مسلم اکثریتی علاقوں میں جہاں پر مضبوط آپشن ملا ہے مسلمانوں نے اسی امیدوار کو ووٹ کیا ہے۔ مثلا میرٹھ میں کل ہند مجلس اتحاد المسلمین کے امیدوار انس کو زبردست ووٹ حاصل ہوئے جبکہ سماجوادی پارٹی کے امیدوار تیسرے نمبر پر رہے۔ اسی طرح کئی مقامات پر ان کے کارپوریٹر نگر پنچایت کے چیئرمین اور نگرپالیکا کے چیئرمین کو بھی جیت حاصل ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کئی ایسے شہر ہیں جہاں پر سماجوادی کا گڑھ مانا جاتا تھا لیکن اس بار شکست کا سامنا کرنا پڑا رام پور میں عام آدمی پارٹی کی امیدوار کو کامیابی ملی سوار اسمبلی نشست کے ضمنی انتخابات میں بی جے پی اتحاد کو کامیابی ملی۔ اس سے واضح ہورہا ہے کہ مسلم ووٹ سماج وادی پارٹی سے کھسکا ہے اور کانگریس کی جانب آیا ہے اور 2024 کے پارلیمانی انتخابات میں مسلمان پوری طرح کانگریس کی جانب آئیں گے۔

کانگریس پارٹی کی کارکن صدف جعفر نے ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اگر اس نتائج کی بنیاد پر 2024 میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات کا اندازہ کررہے ہیں تو بالکل بے بنیاد ہے۔ انہوں نے کہا کہ ووٹنگ کے دوران کئی مسلم اکثریتی علاقوں میں ووٹر لسٹ سے نام غائب تھے اور یہ بہت بڑے پیمانے پر ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلدیاتی انتخابات میں ووٹر لسٹ میں میرا نام بھی نہیں تھا اور کئی ایسے علاقے ہیں جہاں پر پورے محلے کے نام لسٹ میں شامل نہیں تھے، یہ صرف لکھنؤ میں نہیں ہوا بلکہ پورے ریاست میں اس طریقے کا کام ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے بی جے پی کو جیت حاصل ہوئی ہے۔

سماجوادی پارٹی کے رکن اسمبلی اور سابق کابینہ وزیر روی داس ملہوترا نے ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ دلت پسماندہ طبقہ اور مسلمانوں کے مسائل کو لے کر ہم میدان میں آئے تھے اور سبھی طبقات نے ہمیں ووٹ بھی کیا لیکن بی جے پی طاقت کے بل پر جیت حاصل کی ہے۔ وہیں مسلمانوں کا نام ووٹر لسٹ سے غائب کر کے بڑی تعداد میں مسلمانوں کو ووٹ ڈالنے نہیں دیا گیا ہے۔ تیسری بات یہ کہ بی جے پی مخالف ووٹوں میں تقسیم ہوا ہے جس کی وجہ سے سماج وادی پارٹی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

کل ہند مجلس اتحادالمسلمین کے ریاستی ترجمان محمد سلمان کہتے ہیں کہ 2022 میں مسلمانوں نے سماجوادی پارٹی کو بڑھ چڑھ کر ووٹ کیا تھا لیکن سماج وادی پارٹی مسلمانوں کے امیدوں پر کھری نہیں اتری۔ اسمبلی انتخابات کے بعد سے مسلمانوں پر طرح طرح کے ظلم و زیادتی ہوئی۔ ان کے گھروں پر بلڈوزر چلا نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا لیکن اکھلیش یادو خاموشی تماشائی بنے رہے۔ ہم لوگ کہتے ہیں کہ ہم مسلمان قوم کسی کا ووٹ بینک بن کر نہیں رہیں گے۔ ہمیں آنکھ کھولنا پڑے گا اور بلدیاتی انتخابات میں مسلمانوں نے آنکھ کھولا ہے اور ہماری پارٹی کو بڑی کامیابی ملی ہے۔

وہیں بی جے پی کے اقلیتی مورچہ کے ریاستی صدر کنور باسط علی ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ بی جے پی نے بلدیاتی انتخابات میں مسلمانوں کو 395 ٹکٹ دیے تھے جن میں سے تقریبا پچاس مسلم امیدواروں نے کامیابی حاصل کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پسماندہ طبقے نے بڑھ چڑھ کر ووٹ دیا ہے اور اس سے 2024 کے انتخابات بڑی کامیابی کی امید کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کانگریس بی ایس پی اور سماج پارٹی نے مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرکے صرف ان کو استعمال کیا ہے لیکن بی جے پی ان کی ہمہ جہت ترقی کی بات کرتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ مسلمان بی جے پی کے ساتھ ساتھ بڑی تعداد میں آرہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: UP Municipal Elections میرٹھ بلدیاتی انتخابات پر ووٹرز کا ردعمل

ماہرین مانتے ہیں کی بلدیاتی انتخابات میں بی جے پی کو بڑی جیت حاصل ہوئی ہے جس میں وزیر اعلی کی شبیہ مضبوط ہوئی ہے لیکن اس انتخابات سے 2024 کے پارلیمانی انتخابات کو قیاس کرنا بالکل بے بنیاد ہے۔ بلدیاتی انتخابات ایک طرف جہاں علاقائی مسائل پر ہوتا ہے۔ وہیں امیدوار کی بھی مقبولیت ہوتی ہے امیدوار کی مقبولیت پر بھی لوگ ووٹ ڈالتے ہیں اور علاقائی مسائل پر بھی۔ جب کہ پارلیمانی انتخابات میں قومی سطح پر ہونے والے نقصانات اور فائدے کو دیکھ کر کے عوام ووٹ ڈالتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بلدیاتی انتخابات کے نتائج کو لے کر کے 2024 کے انتخابات پر قیاس نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ماہرین یہ بھی مانتے ہیں کہ 2024 کے انتخابات میں اگر مسلم ووٹ میں بکھراوؑ نہیں ہوا اور سیکولر جماعتوں نے اتحاد کیا تو بی جے پی کو شکست بھی ہو سکتی ہے۔

یوپی بلدیاتی انتخابات کے تنائج کا لوک سبھا انتخابات پر کتنا اثر ہوگا؟

لکھنؤ: اتر پردیش میں بلدیاتی انتخابات کے نتائج کا اعلان ہو چکا ہے۔ بی جے پی کو بڑی جیت حاصل ہوئی ہے۔ وہیں کانگریس پارٹی اور بی ایس پی اور اے آئی ایم ائی ایم نے بھی بہتر مظاہرہ کیا ہے جب کہ سماجوادی پارٹی کو 2017 کے مقابلے میں ووٹ فیصد میں کافی گراوٹ درج کی گئی ہے۔ ماہرین مانتے ہیں کہ 2024 میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں یوپی بلدی انتخابات کے نتائج کافی کارگر ثابت ہوں گے۔ ایک طرف جہاں بی جے پی نے زبردست جیت حاصل کی تو وہیں دوسری جانب وزیر اعلی نے اپنی شبیہہ مضبوط کی ہے۔ بی جے پی کے جیت کے پیچھے مسلم ووٹوں میں بکھراؤ اہم وجہ مانی جارہی ہے۔ بی جے پی مخالف ووٹوں کے تقسیم سے 17 میئر کے عہدے پر قابض رہی جبکہ دیگر کسی سیاسی جماعت کا کھاتہ بھی نہیں کھلا۔

کانگریس پارٹی اقلیتی سیل کے ریاستی صدر شہنواز عالم نے ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ بلدیاتی انتخابات کے نتائج کا اگر تجزیہ کریں گے تو کانگریس پارٹی کا بہترین مظاہرہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مرادآباد میں میئر کے عہدے کے لیے کانگریس امیدوار رضوان قریشی کو صرف چار ہزار ووٹوں سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اتنا ہی نہیں مسلم اکثریتی علاقوں میں کانگریس کا بہترین مظاہرہ رہا۔

انہوں نے کہا کہ ایک طرف جہاں سماج وادی پارٹی کو 2022 کے اسمبلی انتخابات میں مسلمانوں نے 95 فیصد ووٹ دیا تھا لیکن بلدیہ انتخابات میں مسلمانوں نے سماج وادی پارٹی سے منہ موڑ لیا یہی وجہ ہے کہ اکثر و بیشتر جگہ پر سماجوادی پارٹی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ مسلم اکثریتی علاقوں میں جہاں پر مضبوط آپشن ملا ہے مسلمانوں نے اسی امیدوار کو ووٹ کیا ہے۔ مثلا میرٹھ میں کل ہند مجلس اتحاد المسلمین کے امیدوار انس کو زبردست ووٹ حاصل ہوئے جبکہ سماجوادی پارٹی کے امیدوار تیسرے نمبر پر رہے۔ اسی طرح کئی مقامات پر ان کے کارپوریٹر نگر پنچایت کے چیئرمین اور نگرپالیکا کے چیئرمین کو بھی جیت حاصل ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کئی ایسے شہر ہیں جہاں پر سماجوادی کا گڑھ مانا جاتا تھا لیکن اس بار شکست کا سامنا کرنا پڑا رام پور میں عام آدمی پارٹی کی امیدوار کو کامیابی ملی سوار اسمبلی نشست کے ضمنی انتخابات میں بی جے پی اتحاد کو کامیابی ملی۔ اس سے واضح ہورہا ہے کہ مسلم ووٹ سماج وادی پارٹی سے کھسکا ہے اور کانگریس کی جانب آیا ہے اور 2024 کے پارلیمانی انتخابات میں مسلمان پوری طرح کانگریس کی جانب آئیں گے۔

کانگریس پارٹی کی کارکن صدف جعفر نے ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اگر اس نتائج کی بنیاد پر 2024 میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات کا اندازہ کررہے ہیں تو بالکل بے بنیاد ہے۔ انہوں نے کہا کہ ووٹنگ کے دوران کئی مسلم اکثریتی علاقوں میں ووٹر لسٹ سے نام غائب تھے اور یہ بہت بڑے پیمانے پر ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلدیاتی انتخابات میں ووٹر لسٹ میں میرا نام بھی نہیں تھا اور کئی ایسے علاقے ہیں جہاں پر پورے محلے کے نام لسٹ میں شامل نہیں تھے، یہ صرف لکھنؤ میں نہیں ہوا بلکہ پورے ریاست میں اس طریقے کا کام ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے بی جے پی کو جیت حاصل ہوئی ہے۔

سماجوادی پارٹی کے رکن اسمبلی اور سابق کابینہ وزیر روی داس ملہوترا نے ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ دلت پسماندہ طبقہ اور مسلمانوں کے مسائل کو لے کر ہم میدان میں آئے تھے اور سبھی طبقات نے ہمیں ووٹ بھی کیا لیکن بی جے پی طاقت کے بل پر جیت حاصل کی ہے۔ وہیں مسلمانوں کا نام ووٹر لسٹ سے غائب کر کے بڑی تعداد میں مسلمانوں کو ووٹ ڈالنے نہیں دیا گیا ہے۔ تیسری بات یہ کہ بی جے پی مخالف ووٹوں میں تقسیم ہوا ہے جس کی وجہ سے سماج وادی پارٹی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

کل ہند مجلس اتحادالمسلمین کے ریاستی ترجمان محمد سلمان کہتے ہیں کہ 2022 میں مسلمانوں نے سماجوادی پارٹی کو بڑھ چڑھ کر ووٹ کیا تھا لیکن سماج وادی پارٹی مسلمانوں کے امیدوں پر کھری نہیں اتری۔ اسمبلی انتخابات کے بعد سے مسلمانوں پر طرح طرح کے ظلم و زیادتی ہوئی۔ ان کے گھروں پر بلڈوزر چلا نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا لیکن اکھلیش یادو خاموشی تماشائی بنے رہے۔ ہم لوگ کہتے ہیں کہ ہم مسلمان قوم کسی کا ووٹ بینک بن کر نہیں رہیں گے۔ ہمیں آنکھ کھولنا پڑے گا اور بلدیاتی انتخابات میں مسلمانوں نے آنکھ کھولا ہے اور ہماری پارٹی کو بڑی کامیابی ملی ہے۔

وہیں بی جے پی کے اقلیتی مورچہ کے ریاستی صدر کنور باسط علی ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ بی جے پی نے بلدیاتی انتخابات میں مسلمانوں کو 395 ٹکٹ دیے تھے جن میں سے تقریبا پچاس مسلم امیدواروں نے کامیابی حاصل کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پسماندہ طبقے نے بڑھ چڑھ کر ووٹ دیا ہے اور اس سے 2024 کے انتخابات بڑی کامیابی کی امید کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کانگریس بی ایس پی اور سماج پارٹی نے مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرکے صرف ان کو استعمال کیا ہے لیکن بی جے پی ان کی ہمہ جہت ترقی کی بات کرتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ مسلمان بی جے پی کے ساتھ ساتھ بڑی تعداد میں آرہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: UP Municipal Elections میرٹھ بلدیاتی انتخابات پر ووٹرز کا ردعمل

ماہرین مانتے ہیں کی بلدیاتی انتخابات میں بی جے پی کو بڑی جیت حاصل ہوئی ہے جس میں وزیر اعلی کی شبیہ مضبوط ہوئی ہے لیکن اس انتخابات سے 2024 کے پارلیمانی انتخابات کو قیاس کرنا بالکل بے بنیاد ہے۔ بلدیاتی انتخابات ایک طرف جہاں علاقائی مسائل پر ہوتا ہے۔ وہیں امیدوار کی بھی مقبولیت ہوتی ہے امیدوار کی مقبولیت پر بھی لوگ ووٹ ڈالتے ہیں اور علاقائی مسائل پر بھی۔ جب کہ پارلیمانی انتخابات میں قومی سطح پر ہونے والے نقصانات اور فائدے کو دیکھ کر کے عوام ووٹ ڈالتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بلدیاتی انتخابات کے نتائج کو لے کر کے 2024 کے انتخابات پر قیاس نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ماہرین یہ بھی مانتے ہیں کہ 2024 کے انتخابات میں اگر مسلم ووٹ میں بکھراوؑ نہیں ہوا اور سیکولر جماعتوں نے اتحاد کیا تو بی جے پی کو شکست بھی ہو سکتی ہے۔

Last Updated : May 15, 2023, 7:32 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.