مودی حکومت کے ذریعہ اچانک لاک ڈاؤن کے اعلان کے بعد مختلف شہروں میں پھنسے مزدوروں نے پیدل ہجرت شروع کر دی، ایک ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزرنے کے بعد بھی ان کی ہجرت کا سلسلہ جاری ہے۔ اب مختلف مدرسوں میں پھنسے طلبہ پیدل ہجرت کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔
مغربی اترپردیش کا ضلع سہارنپور مدرسوں کے لئے مرکزی خطہ کے طور پر مشہور ہے۔ یہاں مدارس کا ایک جال بچھا ہوا ہے۔ دیوبند کا دارالعلوم اور سہارنپور کا مظاہرالعلوم، دونوں عالمی شہرت یافتہ ادارے ہیں۔ ان مدرسوں میں ہزاروں طلبہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے پھنسے ہوئے ہیں۔
ان طلبہ کے حوالے سے ایک پیغام واٹس ایپ گروپ میں گردش کر رہا ہے جس میں ان طلبہ نے 18 مئی کو یعنی پیر کے روز پیدل ہی بہار تک کا سفر کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ ایسا ہی پیدل سفر جو ہزاروں مہاجر مزدور کر رہے ہیں۔ اس پیغام نے دہلی میں واقع مسلم جماعتوں میں تشویش کی لہر پھیلادی ہے۔ پہلے یہ پیغام پڑھیں!
'محترمان..!!! و عزیز از جان!!!
آؤ! پیدل ہی نکل جاتے ہیں
ہم طلبہ نے خود ذاتی طور پر پوری کوششیں کرلیں، اور تمام لوگوں سے رابطہ کرکے اپنا مدعا ان کے سامنے رکھا، لیکن کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہ پوسکا چوںکہ ہمارے درمیان بہت سے، بلکہ اکثر وہ طلبہ ہیں جو کار کا کرایہ برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتے اس لیے ہم طلبہ نے یہ فیصلہ لیا ہے کہ اللہ کے بھروسے #پاپیادہ_کارواں نامی قافلہ بناکر 18/05/2020 بہ روز پیر بعد نماز مغرب ٹھیک رات آٹھ بجے پیدل روانہ ہوں گے چوںکہ یہی آخری حل ہے، یہ قافلہ دیوبند جی ٹی روڈ سے نکل کر سوشل ڈسٹینسنگ(سماجی دوری) کا پالن کرتے ہوے ایک ایک میٹر کا فاصلہ رکھتے ہوے مظفر نگر، بجنور، مرادآباد، بریلی ہوتے ہوے بہار کی جانب روانہ ہوگا، پہلا پڑاؤ مظفر نگر میں ہوگا، پھر اس کے بعد مسلسل گاہے بگاہے قیام کرتے ہوے منزل مقصود کی جانب رواں دواں ہوگا۔
دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمارا کوئی بہتر انتظام کردے اور ہمیں باسلامت گھر پہنچادے۔
زاد راہ:
(1)دو دنوں کا مختصر سوکھا کھانا (وہ اشیاء جو آپ کا پسندیدہ ہو) باقی اللہ بہترین رزق دینے والا ہے،
(2)ایک بوتل پانی
(3)ایک چادر و مچھردانی اگر میسر ہو
(4)چھاتا یا رومال تاکہ دھوپ سے بچا جاسکے
(5)ضروری اشیاء سے پیک ایک پٹھو بیگ
آپ تمام مطمئن رہیں، اللہ بہترین انتظام کرنے والا اور بہترین رزق دینے والا ہے۔
سو(100) طلبہ کا قافلہ پورے طور پر اپنے ساز و سامان کے ساتھ تیار ہے۔ باقی جو ساتھی بھی اس قافلہ کے ساتھ روانہ ہونا چاہتے ہوں تو ہم انھیں مرحبا کہتے ہیں، کہ تعداد جتنی زیادہ ہوگی مشقت اتنی ہی کم ہوگی، وہ حضرات #پاپیادہ_کارواں کیاس وہاٹس اپ نمبر پر
8449117151 اپنا نام، ضلع اور اپنا موبائیل نمبر سینڈ کردیں۔'
اس پیغام کے بارے میں کہا جارہاہے کہ یہ دیوبند میں زیرتعلیم کچھ بہارکے طلبہ نے لکھاہے، جو لاک ڈاؤن سے عاجز آچکے ہیں۔ یہ طلبہ اپنے اپنے گھر جانا چاہتے ہیں مگر ان کی مدد کوئی نہیں کررہا ہے۔ یوگی انتظامیہ نے ان کی طرف توجہ بھی نہیں دی ہے۔
ای ٹی وی بھارت کے نمائندہ نے دیوبند میں مدرسوں کے منتظمین سے بات کی تو پتہ چلاکہ مدرسوں کے ذمہ دار مسلسل انتظامیہ سے مانگ کررہے ہیں کہ جب مختلف مقامات سے اسکول، کالج کے طلبہ کو گھر بھیجنے کے انتظامات کئے جاسکتے ہیں تو مدرسوں کے بچوں کے لئے انتظامات کیوں نہیں؟
دارالعلوم دیوبند کے ایک سینئر استاذ نے بتایاکہ'ہماری جانب سے ضلع انتظامیہ سے کئی بار گزارش کی گئی ہے کہ ان بچوں کے لئے خصوصی انتظامات کئے جائیں تاکہ انہیں ان کے گھروں تک روانہ کیا جا سکے، مگر انتظامیہ کی جانب سے تعاون نہیں کیا جارہا ہے۔'
اس معاملہ پر نظر رکھ رہے اطہر دہلوی کا کہنا ہے کہ 'دیوبند سے وابستہ سبھی قائد اور جماعتیں اپنے طور پر کوشش کررہے ہیں، تاہم آج ہم اس دور میں جہاں کسی کی کوئی سنوائی نہیں۔ انتظامیہ کے نزدیک ہماری کوئی حیثیت ہی نہیں۔'
انہوں نے مزید کہا کہ'طلباء کا پیدل سفر کرنا نہ صرف انکے لئے بلکہ خاندان اور مدرسہ کے سرپرستوں کے لئے نیز پوری ملت اسلامیہ کے لئے بھی کسی نامعلوم آزمائش اور مصیبت کا سبب ہوسکتا ہے اس لئے کسی بھی قیمت پر پریشان حال طلباء کو ایسے عزم و قدم سے قطعی طور پر اجتناب کرنا ضروری ہے۔'
طلبہ کے ذریعہ پیدل ہجرت کے منصوبوں کے سامنے آنے کے بعد مدرسہ مظاہر العلوم کے دار الاہتمام نے ایک بیان جاری کیا ہے اورطلبہ کو ایسی حرکتوں سے باز رہنے کو کہا گیا ہے۔
مولانا محمد سلمان مظاہری نے طلبہ سے اپیل کی ہے کہ کوئی بھی پیدل سڑک پرنہ نکلے۔
انہوں نے بتایا کہ 'مدرسے کے ذمہ داروں کی جانب سے مسلس کوششیں ہو رہی ہیں کہ انتظامیہ کی جانب سے اجازت مل جائے مگر کوششیں کامیاب نہیں ہورہی ہیں۔'
آل انڈیامسلم مجلس مشاورت کے جنرل سکریٹری مولانا عبدالحمید نعمانی جو کہ دارالعلوم دیوبند میں استاذ بھی ہیں نے ایک واٹس ایپ پیغام میں لکھاکہ 'کچھ شر پسند، فرقہ پرستوں کے آلہ کار حالات خراب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جب تک بہتر اطمینان بخش انتظام نہ ہو طلبہ اپنے مستقر کو نہ چھوڑیں، راستے میں بہت سے مسائل و مشکلات اور خطرات ہیں، آج ہی ہماری دارالعلوم دیوبند کے ایک ذمیدار سے بات ہوئی، انتظامیہ کی طرف سے پوری کوشش ہو رہی ہے، اصل میں کورونا کے بہانے ایک بڑا کھیل چل رہا ہے، اسے سمجھنے کی ضرورت ہے، کچھ لوگ طلبہ، مدارس اور ان کے ذمیداروں کے نام پر سیاست کر رہے ہیں، کچھ سنسنی پسند لوگ افواہ اور ماحول کو گرم کرنے میں لگے ہوئے ہیں، صبر، سمجھداری اور خود اعتمادی سے کام لینے کی ضرورت ہے، اگر دارالعلوم دیوبند مجروح ہو گیا تو دیگر مدارس کے خلاف کچھ بھی کرنا آسان ہو جائے گا، آنکھوں سے دیکھتے ہوئے مکھی نگلنا عقلمندی نہیں ہے، سارے لوگ کسی نہ کسی طور سے مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔'
واضح ہو کہ 'ملک میں سیکڑوں ایسے مدارس ہیں، جہاں بڑی تعداد میں مختلف ریاستوں کے طلبہ پھنسے ہوئے ہیں۔ مہاراشٹرکے اشاعت العلوم اکل کوا میں مولانا غلام وستانوی کی کوششوں سے درجنوں طلبہ کو ان کے گھر خصوصی ٹرینوں سے روانہ کیا گیا۔ کچھ ایسی ہی صورتحال گجرات کی ہے، جہاں بڑی تعداد میں مدرسے ہیں۔ یہاں بھی مدرسے کے بچے پھنسے ہوئے ہیں اور ان کا گھر جانا مشکل ہو رہا ہے۔
ایک تخمینہ کے مطابق 'ضلع سہارنپور اوراس سے متعلق دیگر اضلاع میں مختلف ریاستوں کے تقریباً 10 ہزارطلبہ پھنسے ہوئے ہیں۔ ان میں ایک بڑی تعداد بہار، بنگال، آسام اور دور دور کی ریاستوں سے تعلق رکھتی ہے۔ گزشتہ 50دنوں سے وہ بند ہیں۔ مدرسوں کی چھٹیاں ہو چکی ہیں۔ یہ سب پریشان ہیں اور اپنے گھر جانا چاہتے ہیں۔ ایسا کہا جارہا ہے کہ مختلف مسلم جماعتوں کی جانب سے کوششیں ہورہی ہیں کہ ان کے لئے خصوصی انتظامات کئے جائے۔ ایسے وقت میں کئی سوالات کھڑے ہوتے ہیں کہ جب مختلف کالجزکے طلبہ وطالبات کے لئے خصوصی انتظامات کئے جاسکتے ہیں تو مدرسے کے بچوں کو کیوں چھوڑدیا جارہاہے؟ کیا حکومت جان بوجھ کر ایسا کررہی ہے؟ کیا صرف انہیں اس لئے بغیر مدد کے چھوڑ دیا گیا ہے کیونکہ یہ مدرسے کے بچے ہیں؟ کیا ہوگا اگر ان بچوں نے مزدوروں کی طرح پیدل ہجرت شروع کردیا؟