اس معاملے میں ضلع اناؤ کو چھوڑ کر پوری ریاست کی سیاست کافی گرم ہے۔ کانگریس، سماجوادی پارٹی(ایس پی) اور بہوجن سماج پارٹی(بی ایس پی) نے اس معاملے میں بھارتیہ جنتا پارٹی حکومت کو گھیر رکھا ہے۔
ریاست کے دارالحکومت سمیت مختلف اضلاع وشہروں میں اس حادثے کی آڑ میں ریاستی حکومت کے طرز امور اور نظم و نسق پر سوال اٹھاتے ہوئے احتجاجی مظاہرے کیے جارہے ہیں ۔
سوشل میڈیا کے صفحات اس حادثے کے تذکرے سے بھرے پڑے ہیں۔سپریم کورٹ نے بھی اس معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے جمعرات کو اس سلسلے میں سماعت کی اور کئی اہم ہدایات دیں۔
جہاں اس معاملے کی دوسرے مقامات پر تذکرے ہیں تو وہیں اس کے برخلاف اناؤ شہر اور اس کے آس پاس علاقوں میں مکمل خاموشی ہے۔ضلع میں اس حادثے کے حوالے سے عوام لوگوں کے ساتھ کوئی سیاسی پارٹی بھی احتجاج کرنے سے ہچکچاتی دکھائی دے رہی ہے۔
عوامی مقامات، سرکاری دفاتر یا کچہری وغیرہ میں اس بارے میں کوئی بھی متأثرہ یا ملزم ایم ایل اے کے بارے میں کچھ بھی کہنے کو تیار نہیں ہے۔
ماکھی گاؤں جہاں متأثرہ کے ساتھ گینگ ریپ کیا گیا تھا وہاں بھی پراسرار خاموشی چھائی ہوئی ہے اور کسی انجان چہرے کو دیکھتے ہی لوگ اپنے گھروں کے دروازے بند کرلیتے ہیں۔
اپنے اپنے مکانات کی چہار دیواری کے اندر لوگ دبی آواز میں متأثرہ کے ساتھ ناانصافی پر تبادلہ خیال کرتے ہیں لیکن بی جے پی ایم ایل اے کے خوف سے کچھ بھی بولنے سے کتراتے ہیں۔اناؤ بار اسوسی ایشن نے حالانکہ سڑک حادثے میں زخمی متأثرہ کے وکیل کو بطور معاوضہ ایک لاکھ روپے بطور معاوضہ دینے کا اعلان کیا ہے۔
پورے ملک میں لوگوں کے بحث کا موضوع بنے اس سنسنی خیز معاملے کا آغاز جون 2017 میں ہوئی تھی جب متأثرہ نے بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) رکن اسمبلی کلدیپ سنگھ سینگر اور ان کے ساتھیوں پر گینگ ریپ کا الزام عائد کیا تھا۔
لیکن متأثرہ کی جانب سے بار بار پولیس اسٹیشن کا چکر لگانے کےبعد اس ضمن میں کوئی مقدمہ تو درج نہیں کیا گیا البتہ 8 اپریل 2018 کو متأثرہ کے والد کو اناؤ پولیس نے آرمس ایکٹ کے تحت گرفتار کرلیا۔ اور والد کی پولیس حراست میں مشتبہ حالت میں موت ہوگئی۔ اہل خانہ نے پولیس کی پٹائی سے موت ہونے کا الزام عائد کیا۔