ریاست اترپردیش کا شہر رامپور دراصل نوابوں کے شہر کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ آزادی سے پہلے رامپور میں نوابوں کا اپنا الگ رتبہ ہوتا تھا، اور نوابوں کے اپنے دو ریلوے اسٹیشنز ہواکرتے تھے جہاں پر کئی بوگیاں ہمیشہ سفر پر روانہ ہونے کے لیے تیار رہا کرتی تھیں۔
نوابوں کو جب بھی دلی، لکھنؤ یا پھر کسی دیگر شہر جانا ہوتا تھا تو وہ ریلوے سٹیشن آجاتے تھے اور یہاں سے ان کی ان خاص بوگیوں کو ٹرین میں جوڑ دیا جاتا تھا۔
حالانکہ اب سٹیشن پر کھڑی بوگیاں جائیداد کی تقسیم کے تنازعہ کی وجہ سے کھنڈر میں تبدیل ہوچکی ہیں اور ان پر زنگ لگ چکا ہے۔
واضح رہے کہ رامپور میں سنہ 1774 سے 1949 تک نوابین کی حکمرانی رہی، نواب رضا علی خاں ریاست رامپور کے آخری حکمراں تھے۔
نوابی دور بھلے ہی ختم ہو چکا ہے، لیکن اس دور میں تعمیر ہونے والی بلند و پایہ عمارتیں آج بھی اس دور کی عکاس ہیں، ایسی ہی ایک عمارت رامپور ریلوے سٹیشن کے پاس ہے، جسے نواب سٹیشن کے نام سے جانا ہے۔
رامپور کے نویں نواب، حامد علی خاں کے دور میں جب ضلع سے ریلوے لائن گزری تو انہوں نے ریلوے سٹیشن کے نزدیک ہی اپنے لیے ایک علیٰحدہ ریلوے سٹیشن تعمیر کرایا تھا۔
دہلی یا لکھنؤ جاتے وقت نواب خاندان اپنے محل سے سیدھے نواب سٹیشن پہنچتے اور وہاں سے اپنی بوگیوں میں بیٹھ جاتے۔

رامپور سٹیشن پر ٹرین آنے پر ان کی بوگیاں اس میں جوڑ دی جاتیں تھیں، بعد میں حکومتی اصول و ضوابط کے باعث اس پر روک لگ گئی، جس کے بعد نواب خاندانوں کے درمیان جائیداد کی تقسیم کے پیش نظر تنازعہ پیدا ہوگیا۔
دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے اس سٹیشن پر کھڑی بوگیوں کی چمک پھیکی پڑنے لگی، حالت یہ ہے کہ کبھی شاہی انداز میں سجی رہنے والی ان بوگیوں کو آج زنگ لگ چکا ہے، بوگیوں کے تمام دروازے اور کھڑکیاں بند کر دیے گئے ہیں۔
بوگیوں کے دروازوں پر تالے لگے ہوئے ہیں، اسی طرح نواب سٹیشن بھی کھنڈر بن چکا ہے، جسے اب کچھ لوگ موٹر سائیکل اور سکوٹر سیٹنڈ کے طور پر استعمال کرنے لگے ہیں۔
رامپور میں نواب کا سٹیشن بھلے ہی بدحالی کا شکار ہے لیکن اس کا سنہرا ماضی اس سے محبت اور الفت پیدا کر رہا ہے۔
تاریخ کے اوراق پلٹنے سے اس بات کے ثبوت ملتے ہیں کہ ریاست رامپور کے نواب، حامد علی خان نے اپنا ریلوے سٹیشن بنوایا تھا تاہم اس خطہ میں ریل خدمات سنہ 1894 میں شروع ہوئیں۔
یاد رہے کہ اس اودھ اور روہیل کھنڈ نے ریلوے ریل خدمات کا آغاز کیا تھا، سنہ 1925 میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے ملک میں ریلوے کا نظم سنبھالا، اسی برس نواب حامد علی خاں نے تقریباً 40 کلومیٹر تک ریلوے لائن بچھوائی تھی۔

بتایا جاتا ہے کہ رامپور نواب ریلوے سٹیشن، رامپور ریلوے سٹیشن اور پھر ملک نواب کا سیلون نواب ریلوے سٹیشن پر کھڑا ہوتا تھا، جبکہ رامپور ریلوے سٹیشن عام لوگوں کے لیے بنایا گیا تھا۔
سنہ 1930 میں نواب حامد علی خاں کا انتقال ہو گیا، اس کے بعد نواب رضا علی خاں نے ریاست کی کمان سنبھالی، اور سنہ 1949 میں ریلوے حکومت ہند کے ماتحت ہو گیا۔
سنہ 1954 میں نواب نے رامپور ریلوے سٹیشن اور دو سیلون ریلوے کو تحفہ کے طور پر دے دیے، تاہم نواب نے کل چار سیلون بنوائے تھے۔
ریاست کے کام کے لیے وہ رامپور سے ملک تک اکثر سفر کرتے تھے، جس میں دو آدمی کی سٹنگ ہوتی تھی جبکہ پورا کوچ ایئرکنڈیشنڈ تھا، دو بیڈروم اور غسل خانے بھی تھے۔
واضح رہے کہ سیلون کمرے کی شکل کے ہوتے تھے، اس میں پینٹنگ بھی لگی ہوئی تھی۔
اب جبکہ نواب خاندان کے درمیان نوابوں کی جائیداد کی تقسیم کا مرحلہ چل رہا ہے، اور یہ معاملہ سپریم کورٹ پہنچا ہے۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے نواب خاندان کی جائیداد کی تقسیم کے لیے ذمہ داری رامپور ضلعی عدالت کو سونپ دی ہے۔
اب ایک ایک عمارت کی آج کی قیمت کے حساب سے عدالت نواب کے تمام خاندان کے درمیان تقسیم کریگی۔
بتایا جارہا ہے کہ نواب ریلوے سٹیشن کے خستہ حال ہونے کی وجہ سے اب اس کی قیمت محض ساڑھے 18 لاکھ روپے ہی رہی گئی ہے۔