علی گڑھ: عالمی شہرت یافتہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے بانی ہونے کے باوجود بھی تاریخی وکٹوریا گیٹ کے علاوہ سر سید کا نام اُن کے دور کی تعمیرات پر ڈھونڈنے پر بھی نہیں ملتا کیونکہ سر سید نام و نمود کے قائل نہیں تھے جبکہ آج عہدیداران کے نام ہر چھوٹی بڑی تعمیرات سمیت غیر ضروری مقامات پر بھی کندہ نظر آتے ہیں۔ بانی درسگاہ سرسید احمد خان نے اپنی علی گڑھ تحریک کی بنیاد جہاں ڈالی وہ آج سرسید ہال کی نام سے جانی جاتی ہے جہاں موجود بلندو بالا تاریخ اور اہمیت کا حامل وکٹوریا گیٹ کو اس بات پر فخر ہے کہ یہ سرسید کے دور کی وہ واحد عمارت ہے جہاں پر سر سید کا نام نصب ہے، جس سے واضح ہوتا ہے کہ سر سید احمد خان نام و نمود کے قائل نہیں تھے۔
مذکورہ ضمن میں ماہرِ سرسید ڈاکٹر راحت ابرار نے ای ٹی وی سے خصوصی گفتگو میں وکٹوریا گیٹ کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے سر سید سے متعلق بتایا کہ آپ نے اپنی تحریک اسی مقام سے شروع کی تھی جس کے لئے اُن کو 1873ء میں 74 ایکڑ زمین حاصل تو ہو گئی تھی لیکن چونکہ سر سید کے پاس پیسے نہیں تھے اس لئے انہوں نے ایک مہم شروع کی جس کا نام "اپنی مدد آپ" تھا جس کے تحت سر سید نے کہا جو شخص ادارے کی تعمیر، اس کی باؤنڈری وال اور گیٹ کی تعمیر میں تعاون کرے گا اس کا نام عمارت میں کندہ کروایا جائے گا۔ سر سید کے دوست حاجی مولوی اسماعیل خان نے سر سید سے کہا میں محمڈن اینگلو اورینٹل (ایم اے او) کالج کا مرکزی گیٹ (وکٹوریا گیٹ) کی تعمیر کے لئے ایک شرط پر تعاون کروں گا کہ آپ بھی اس پر اپنا نام کندہ کروائیں گے، سر سید نے یہ شرط اس لئے مانی کیوں کہ ان کو کالج کے گیٹ کی تعمیر کروانی تھی جس کے لئے ان کے پاس پیسے نہیں تھے۔
افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ابرار نے مزید کہا آج یونیورسٹی کی سڑک کی مرمت پر بھی عہدیداران اپنے نام پتھر پر کندہ کروا رہے ہیں جو یونیورسٹی کے لئے بدقسمتی ہے، تاریخی عمارات کی تاریخ کو تباہ کیا جا رہا ہے، جس کا ان کو علم بھی نہیں ہے۔ ایک جانب اے ایم کے بانی ہونے کے باوجود سرسید احمد خان کا نام وکٹوریا گیٹ کے علاوہ کسی اور مقام پر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا تو وہیں دوسری جانب چند سالوں کے لئے یونیورسٹی کے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہونے والے عہدیداران یونیورسٹی کی جانب سے نو تعمیر شدہ عمارات سمیت غیر ضروری مقامات پر بھی اپنے نام کا پتھر لگواکر تاریخ رقم کرتے نظر آتے ہیں۔ اتنا ہی نہیں بلکہ اے ایم یو صد سالہ تقریب کے موقع پر یونیورسٹی کی جانب سے تعمیر کرائے گئے سینٹنری گیٹ پر بھی دو دو جگہ نام و نمود کے لیے پتھر نصب کرائے گئے ہیں اور سرسید ہال (جنوب) میں سڑک کی مرمت کے بعد دو مقام ایسے نظر آتے ہیں جہاں عہدیداران کے نام نصب ہیں۔ ساتھ ہی رنگ و روغن اور مرت کے کام پر بھی پتھر کے سینے میں عہدیداران کے نام نظر آتے ہیں۔
واضح رہے کہ اسی ضمن میں سابق وائس چانسلر ڈاکٹر طارق منصور نے اپنی چھ سالہ مدت کے دوران اپنے نام کے سب سے زیادہ پتھر نصب کرکے تاریخ تو رقم کی ہی ہے بلکہ بی جے پی کا (ایم ایل سی) بننا بھی کسی تاریخ سے کم نہیں، جبکہ اُن سے قبل یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور طلباء کو صدر جمہوریہ، نائب صدر جمہوریہ اور گورنر تو بنائے گئے ہیں۔ سر سید ہال (جنوب) کے رہائشی طالب علم عبدالوحید نے بتایا کہ میرے ہی ہال میں چھ سے زائد مقامات پر معمولی کام کروانے پر بھی عہدیداران کے نام پتھر پر کندہ ہیں۔ ہال میں سڑک کی مرمت، جم کی تزین کاری، ریڈنگ ہال کا رنگ و روغن وغیرہ کے معمولی کاموں پر نام کندہ ہیں جس پر خرچ یونیورسٹی فنڈ سے کیا گیا ہے۔ وحید نے مزید کہا یونیورسٹی میں یہ ایک غلط روایت شروع ہو گئی ہے جس کی وجہ سے مستقبل میں یہ یونیورسٹی پتھروں والی یونیورسٹی کے نام سے جانی جائے گی۔
یونیورسٹی کے قیام کے بعد ایک وقت ایسا بھی آیا جب تاریخ کی نظریں گواہ بنی کہ سرسید کی مہم 'اپنی مدد آپ' کے تحت تعمیرات میں تعاون کرنے والوں اور عمارات کو بنوانے والوں کا نام کندہ کیا جاتا تھا تاکہ آنے والی نسلوں میں ان کی قربانیاں یاد کی جائیں لیکن اب چند سالوں کے لئے یونیورسٹی انتظامیہ کے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوتے ہیں اور اپنے کارناموں کی شہرت کے لیے اپنے ہی نام سے پتھروں کا سینہ چاک کردیتے ہیں۔
واضح رہے کہ اے ایم یو کا موجودہ تاریخی 'وکٹوریہ گیٹ' محمڈن اینگلو اوریئنٹل (ایم اے او) کالج کا پہلا اور صدر دروازہ ہے جس کی تعمیر تین مختلف وقت میں تاریخی اسٹریچی ہال کے ساتھ ہوئی جس میں بانی درسگاہ سر سید احمد خان نے بڑی دلچسپی کے ساتھ حصہ لیا۔ 'وکٹوریہ گیٹ' انتہائی خوبصورت انڈو برٹش آرکیٹیکچر کا بہترین نمونہ ہے، جو ایم اے او کالج کے تینوں دروازوں میں سے سب سے زیادہ خوبصورت اور تاریخی اہمیت کا حامل دروازہ ہے۔ صدر دروازے کی تعمیر 1894 کو مکمل ہو گئی تھی۔ 25 جلائی 1914 کو صدر دروازے کا نام تبدیل کرکے وکٹوریہ گیٹ رکھا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: AMU 9 Rank In NIRFاین آئی آر ایف 2023 کی درجہ بندی میں اے ایم یو کا نواں مقام