اتر پردیش میں اسمبلی انتخابات کی تاریخ کا اعلان Up Polls 2022 کے بعد جوڑ توڑ کی سیاست میں تیزی آئی ہے۔ ایسے میں مسلم پولیٹیکل کونسل آف انڈیا کے قومی صدر تسلیم رحمانی نے لکھنؤ میں واقع یوپی پریس کلب میں میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ' اتر پردیش کی تقریبا ڈیڑھ سو سے زائد اسمبلی نشستوں پر کام جاری ہے، اور میری یہی کوشش ہے کی کوئی بھی سیاسی پارٹی اکثریت سے حکومت سازی نہ کر پائے Absolute Majority is Dangerous for Democracy تاکہ مظلوم بے سہارا لوگوں کو انصاف مل سکے۔
پریس کانفرنس کے بعد ای ٹی وی بھارت سے انہوں نے خاص بات چیت کے دوران کہا کہ ہم ہنگ اسمبلی کی صرف بات نہیں کر رہے ہیں بلکہ اس کے لیے ضلع سطح پر ہماری ٹیم کام کر رہی ہے۔ جن اسمبلی نشستوں پر ہمیں لگے گا کہ سماجوادی پارٹی کو ووٹ کرنا چاہیے وہاں پر ہم مسلمانوں سے اپیل کریں گے کہ سماجوادی پارٹی کو ووٹ کریں اور جن اسمبلی نشستوں پر لگے گا کہ بی ایس پی یا کانگریس کو ووٹ دیا جائے وہاں پر بی ایس پی اور کانگریس کو ووٹ کریں گے تاکہ کسی کی بھی سیاسی جماعت کو اکثریت سے حکومت نہ بن سکے۔
انہوں نے کہا کہ 'اکثریت سے حکومت بننے کے بعد غریب بے سہارا اور مظلوم اور پسماندہ طبقات کو انصاف ملنے کی امید کم ہو جاتی ہے۔ اس لیے میری یہی کوشش ہے کہ ہنگ اسمبلی ہو۔'
تسلیم رحمانی کا کہنا ہے کہ سنہ 2002 اور دو 2007 میں مسلم پولٹیکل کونسل آف انڈیا نے ہنگ اسمبلی پر کام کیا تھا اور بہت حد تک کامیابی ملی تھی لیکن سنہ 2017 میں اس پر کام نہیں ہو سکا یہی وجہ ہے کہ بی جے پی کو واضح اکثریت سے حکومت سازی کا موقع مل گیا اب 2022 میں ہنگ اسمبلی انتخابات Tasleem Rahmani on UP Assembly Poll پر پوری طریقے سے کام کر رہے ہیں اور 10 مارچ کو آنے والے انتخابات کے نتائج کی صورت کچھ مختلف ہوگی۔'
انہوں نے کہا کہ مولانا سجاد نعمانی نے اسد الدین اویسی کے نام جو کھلا خط لکھا ہے یہ ان کی ذاتی رائے ہو سکتی ہے، وہ کسی بھی سیاسی پارٹی کو مشورہ دے سکتے ہیں، لیکن ہمارا خیال ہے کہ اے آئی ایم آئی ایم تاحال کوئی سیاسی متبادل نہیں ہے۔ تسلیم رحمانی نے ایم آئی ایم کو مشورہ دیا کہ وہ پہلے زمینی سطح پر اپنا ڈھانچہ کھڑا کرے، تبھی جا کر وہ سیاسی متبادل بن سکتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ موجودہ وقت میں نام نہاد سیکولر سیاسی جماعتیں مسلمانوں کو اگرچہ امیدوار کے طور پر نامزد کر رہی ہیں تاہم ان کی کامیابی کی شرح کافی کم ہوتی ہے یہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت کیا جا رہا ہے، لہذا ہم مطالبہ کریں گے کہ مسلمان اپنی سیاسی شعور کو بیدار کرے اور جو پارٹیاں مسلم امیدوار کو نامزد کر رہی ہیں اس پر بھی خاص خیال رکھیں۔'
مسلم پولٹیکل کونسل آف انڈیا کے صدر نے متھورا کاشی اور ایودھیا کے حوالے سے کہا کہ 'معاملہ اگرچہ عقیدت سے وابستہ ہے، لیکن ہر انتخابات میں ان معاملوں کو لایا جاتا ہے۔ لہذا اس مسئلے پر مجلس مشاورت نے بات چیت کی اور ایک میٹنگ منعقد کی جس پر تمام امور پر غور وخوض کیا گیا تھا۔'
انہوں نے کہا کہ اتر پردیش میں ایس ڈی پی آئی اور مسلم سماج پر خاص طور سے ظلم میں اضافہ ہوا ہے۔ وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے جو بیان دیا کہ 80 فیصد بنام 20 فیصد کا مقابلہ ہے جس پر انہوں نے کہا کہ 80 ہم ہیں چونکہ 80 فیصد اترپردیش میں سیکولر لوگ ہیں جو سیکولر سیاسی سیاست کو ترجیح دیتے ہیں اور اگر 20 فیصد ان کے دشمن ہیں تو اس کو بھی واضح کریں۔'
انہوں نے اسدالدین اویسی کے حوالے سے کہا کہ' اتر پردیش کی سیاست میں سرگرم نظر آئے، تاہم وہ حقیقی سیاست نہ کر کے الیکٹورل سیاست کرتے ہیں اور اکثریت کا رجحان بنانے کا کام کرتے ہیں۔ لہذا کامیاب سیاست کے لیے پارٹی کا ڈھانچہ کھڑا کر کے، حکمت عملی کے ساتھ کام کرنا ہوتا ہے نہ کہ جذباتی تقریر کے ساتھ۔'
اترپردیش میں سی اے اے اور این آر سی کی مظاہرے کے درمیان 22 لوگوں کی موت اور اس پر ایک بھی ایف آئی آر درج نہ ہونے پر انہوں نے اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر ایف آئی آر درج بھی ہو جائے تب بھی کسی قسم کی کارروائی نہیں ہوتی۔ یہ المیہ ہے کہ 22 مسلم نوجوانوں کے قتل کے بعد بھی کسی قسم کی کوئی کارروائی نہیں ہوئی اور نہ ہی کوئی ایف آئی آر درج ہوا۔'
مزید پڑھیں: