اردو زبان و ادب، تہذیب و ثقافت و نوابی طور طریقے نے لکھنؤ کو دیگر شہروں سے منفرد اور انوکھا تصور کیا جاتا ہے لیکن اسی شہر میں اردو کی زبوں حالی کا حال یہ ہے کہ اردو قارئین میں کمی کی وجہ سے متعدد اردو کتابوں کی دکانیں بند ہوچکی اور جو کتابوں کی دکانیں موجود ہیں وہ موت جیست کی کشمکش میں اپنے وجود کی لڑائی لڑ رہی ہیں۔
1965 سے لکھنؤ کے امین آباد میں موجود اردو کتابوں کی دوکان دانش محل آج بھی موجود ہے۔ ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے دانش محل کے مالک محمد نعیم نے بتایا کہ اردو کتابوں کے پڑھنے کا رواج ختم نہیں ہوا ہے لیکن اتنا ضرور ہے ایک زمانے میں جو لکھنؤ کے عوام کا اردو سے لگاؤ و دلچسپی تھی وہ دلچسپی اب لکھنؤ کے اطراف و اکناف کے اضلاع میں منتقل ہوئی ہے مثلاً ملیح آباد، فیض آباد، خیرآباد اور بارہ بنکی کے لوگوں میں اردو زبان پڑھنے، لکھنے اور بولنے کی دلچسپی میں اضافہ ہوا ہے وہیں لکھنؤ کے مقامی لوگوں میں کمی دیکھی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ کچھ برس قبل لکھنؤ کے امین آباد میں متعدد بک ڈپو و کتابوں کی دکانیں موجود تھیں لیکن رفتہ رفتہ بیشتر دوکانیں ختم ہوگئیں اور جو کتابوں کی دکانیں ہیں وہ مذہبی کتابوں کو فروخت کررہے ہیں اور اسی کا مطالبہ بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اردو ادب، افسانہ اور شاعری کی کتابوں کی جانب عوام کی توجہ کم ہوگئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کیا جموں میں اردو صحافت تنزلی کا شکار ہے؟
صدیق بک ڈپو کے نام سے موجود کتاب کی دوکان کے مالک اکمل نے ای وی بھارت سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ موجودہ دور میں اردو کتاب پڑھنے کا رواج کم ہوا ہے زیادہ تر لوگ آن لائن کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اب دکانوں کی کمی میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا ہے جو دکاندار اردو ادب کی کتابیں فروخت کرتے تھے وہ اب مذہبی کتابیں فروخت کرنے لگے ہیں۔