ETV Bharat / state

جب سرسید نے پیروں میں گھنگرو باندھے - اے ایم یو کے بانی سرسید احمد خان

اے ایم یو کے بانی سرسید احمد خان نے ادارے کی تعمیر کے لیے علی گڑھ کی نمائش میں پیروں میں گھنگرو باندھ کر ڈرامہ پیش کیا۔

جب سرسید نے پیروں میں گھنگرو باندھے
جب سرسید نے پیروں میں گھنگرو باندھے
author img

By

Published : Feb 11, 2020, 9:06 PM IST

Updated : Mar 1, 2020, 12:44 AM IST

ریاست اترپردیش کے شہر علی گڑھ میں واقع عالمی شہرت یافتہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بانی سرسید احمد خان نے ادارے کی تعمیر کے لیے اپنے پیروں میں گھنگرو باندھ کر تاریخی نمائش میں ایک ڈرامہ کے ذریعے چندہ اکٹھا کیا۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سرسید احمدخان کے خوابوں کی تعبیر ہے جس کی پوری دنیا میں ایک پہچان ہے۔ اس ادارے کی تعمیر کے لیے سرسید احمدخان نے ہر وہ ممکن کوشش کی، اور طریقہ اپنایا جس کو وہ کرسکتے تھے۔

علی گڑھ کی تاریخی نمائش میں 8 اور 10 فروری سنہ 1884 کو سرسید احمد خان نے اپنے پیروں میں گھنگرو باندھ کر ایک ڈرامہ پیش کیا تھا، جس میں علامہ شبلی نعمانی جیسی شخصیت بھی موجود تھی، اتنا ہی نہیں انہوں نے علی گڑھ نمائش میں ہی ایک کتابوں کی دکان بھی لگائی تھی۔

جب سرسید نے پیروں میں گھنگرو باندھے

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی شعبہ رابطہ عامہ کے ایسوسی ایٹ رکن انچارج پروفیسر راحت ابرار نے خصوصی گفتگو میں بتایا سرسید احمد خان نے اس ادارے کے قیام کے لیے جو بھی ممکن طریقہ ہوسکتے تھے وہ سب اپنائے۔

انہوں نے کہا کہ ان کا سب سے پہلا کام یہ جو ادارہ قائم کیا اس کا جو بنیادی تصور ہے وہ ہے اپنی مدد آپ۔ اپنی مدد آپ کے لیے انہوں نے چندہ شروع کیا اور کہا کہ جو لوگ کالج کی جو بانڈری وال ہے، جو شخص 25 روپے دے گا اس کا نام بانڈری وال پر لکھا جائے گا (جو آج بھی لکھا ہوا ہے) اور جو شخص 250 روپے دے گا اس کا نام قیام گاہ کے کمروں پر کلاس روم پر لکھا جائے گا اور جو شخص 1500 روپے دے گا اس کا نام اسٹریچی ہال پر لکھا جائے گا۔

انہوں نے کہا تھا کہ یہ کم سے کم رقم تھی اس کے علاوہ انہوں نے بہت سے طریقہ اپنائے اور ان طریقوں میں انہوں نے ایک بہت بڑا حلقہ قائم کیا اور ظاہر ہے اس حلقہ میں ان کے جو دوست احباب تھے ان میں ان کو مرکزیت حاصل تھی۔

اے ایم یو کے بانی سرسید احمد خان نے ادارے کی تعمیر کے لیے علی گڑھ کی نمائش میں گھنگرو باندھ کر ڈرامہ پیش کیا۔
اے ایم یو کے بانی سرسید احمد خان نے ادارے کی تعمیر کے لیے علی گڑھ کی نمائش میں گھنگرو باندھ کر ڈرامہ پیش کیا۔

اور انہوں نے 24 مئی سنہ 1875 میں ایک چھوٹے سے مدرسہ سے اس مہم کا آغاز کیا تھا، جبکہ سنہ 1877 میں کالج کا سنگ بنیاد رکھا گیا حالانکہ سرسید کے انتقال 1898 میں ہوا تھا اس کے 22 برس بعد سنہ 1920 میں مدرسے کو یونیورسٹی کا درجہ حاصل ہوا جو آج اپنی ایک سو سالہ تقریب منانے کی جانب گامزن ہے۔

ڈاکٹر راحت ابرار نے مزید کہا سرسید احمد خان نے وہ تمام کام کیے جو ادارے کی ترقی کے لیے ضروری تھے۔

خیال رہے کہ علی گڑھ میں آج کل نمائش لگی ہوئی ہے،آٹھ، 10 فروری سنہ 1884 میں سرسیداحمدخان نے اسی نمائش میں ڈرامہ کیا تھا اس ڈرامے میں بڑے بڑے لوگ شامل تھے، جس میں علامہ شبلی نعمانی جیسے بزرگ بھی موجود تھے، اتنا ہی نہیں ضلع کے افسران کے علاوہ اس وقت کے ضلع مجسٹریٹ کینیڈی، موریاں، اس وقت سول سرونٹانگریز بھی اس میں شامل تھے اور ایک افغانستان کا سیاح سنجر بھی آیا ہوا تھا، اسی وقت اس نے بھی فارسی میں ایک نظم پیش کی، اس طرح سرسید احمد خان نے اپنے پیروں میں گھنگرو باندھ کر چندہ جمع کرنے کا طریقہ اپنایا۔

سرسید کا خیال تھا کہ کم از کم لوگ ڈرامہ کو دیکھ کر پیسے دیں گے۔ سرسید احمد خان نے علی گڑھ کی تاریخی نمائش میں ایک کتاب کی دکان بھی لگائی، جس سے اس ادارے کی توسیع اور ترقی ہوسکے۔

ریاست اترپردیش کے شہر علی گڑھ میں واقع عالمی شہرت یافتہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بانی سرسید احمد خان نے ادارے کی تعمیر کے لیے اپنے پیروں میں گھنگرو باندھ کر تاریخی نمائش میں ایک ڈرامہ کے ذریعے چندہ اکٹھا کیا۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سرسید احمدخان کے خوابوں کی تعبیر ہے جس کی پوری دنیا میں ایک پہچان ہے۔ اس ادارے کی تعمیر کے لیے سرسید احمدخان نے ہر وہ ممکن کوشش کی، اور طریقہ اپنایا جس کو وہ کرسکتے تھے۔

علی گڑھ کی تاریخی نمائش میں 8 اور 10 فروری سنہ 1884 کو سرسید احمد خان نے اپنے پیروں میں گھنگرو باندھ کر ایک ڈرامہ پیش کیا تھا، جس میں علامہ شبلی نعمانی جیسی شخصیت بھی موجود تھی، اتنا ہی نہیں انہوں نے علی گڑھ نمائش میں ہی ایک کتابوں کی دکان بھی لگائی تھی۔

جب سرسید نے پیروں میں گھنگرو باندھے

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی شعبہ رابطہ عامہ کے ایسوسی ایٹ رکن انچارج پروفیسر راحت ابرار نے خصوصی گفتگو میں بتایا سرسید احمد خان نے اس ادارے کے قیام کے لیے جو بھی ممکن طریقہ ہوسکتے تھے وہ سب اپنائے۔

انہوں نے کہا کہ ان کا سب سے پہلا کام یہ جو ادارہ قائم کیا اس کا جو بنیادی تصور ہے وہ ہے اپنی مدد آپ۔ اپنی مدد آپ کے لیے انہوں نے چندہ شروع کیا اور کہا کہ جو لوگ کالج کی جو بانڈری وال ہے، جو شخص 25 روپے دے گا اس کا نام بانڈری وال پر لکھا جائے گا (جو آج بھی لکھا ہوا ہے) اور جو شخص 250 روپے دے گا اس کا نام قیام گاہ کے کمروں پر کلاس روم پر لکھا جائے گا اور جو شخص 1500 روپے دے گا اس کا نام اسٹریچی ہال پر لکھا جائے گا۔

انہوں نے کہا تھا کہ یہ کم سے کم رقم تھی اس کے علاوہ انہوں نے بہت سے طریقہ اپنائے اور ان طریقوں میں انہوں نے ایک بہت بڑا حلقہ قائم کیا اور ظاہر ہے اس حلقہ میں ان کے جو دوست احباب تھے ان میں ان کو مرکزیت حاصل تھی۔

اے ایم یو کے بانی سرسید احمد خان نے ادارے کی تعمیر کے لیے علی گڑھ کی نمائش میں گھنگرو باندھ کر ڈرامہ پیش کیا۔
اے ایم یو کے بانی سرسید احمد خان نے ادارے کی تعمیر کے لیے علی گڑھ کی نمائش میں گھنگرو باندھ کر ڈرامہ پیش کیا۔

اور انہوں نے 24 مئی سنہ 1875 میں ایک چھوٹے سے مدرسہ سے اس مہم کا آغاز کیا تھا، جبکہ سنہ 1877 میں کالج کا سنگ بنیاد رکھا گیا حالانکہ سرسید کے انتقال 1898 میں ہوا تھا اس کے 22 برس بعد سنہ 1920 میں مدرسے کو یونیورسٹی کا درجہ حاصل ہوا جو آج اپنی ایک سو سالہ تقریب منانے کی جانب گامزن ہے۔

ڈاکٹر راحت ابرار نے مزید کہا سرسید احمد خان نے وہ تمام کام کیے جو ادارے کی ترقی کے لیے ضروری تھے۔

خیال رہے کہ علی گڑھ میں آج کل نمائش لگی ہوئی ہے،آٹھ، 10 فروری سنہ 1884 میں سرسیداحمدخان نے اسی نمائش میں ڈرامہ کیا تھا اس ڈرامے میں بڑے بڑے لوگ شامل تھے، جس میں علامہ شبلی نعمانی جیسے بزرگ بھی موجود تھے، اتنا ہی نہیں ضلع کے افسران کے علاوہ اس وقت کے ضلع مجسٹریٹ کینیڈی، موریاں، اس وقت سول سرونٹانگریز بھی اس میں شامل تھے اور ایک افغانستان کا سیاح سنجر بھی آیا ہوا تھا، اسی وقت اس نے بھی فارسی میں ایک نظم پیش کی، اس طرح سرسید احمد خان نے اپنے پیروں میں گھنگرو باندھ کر چندہ جمع کرنے کا طریقہ اپنایا۔

سرسید کا خیال تھا کہ کم از کم لوگ ڈرامہ کو دیکھ کر پیسے دیں گے۔ سرسید احمد خان نے علی گڑھ کی تاریخی نمائش میں ایک کتاب کی دکان بھی لگائی، جس سے اس ادارے کی توسیع اور ترقی ہوسکے۔

Intro:ریاست اترپردیش کے ضلع علی گڑھ میں واقع عالمی شہرت یافتہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بانی سرسید احمد خان نے ادارے کی تعمیر کے لیے اپنے پیروں میں گھنگرو باندھ کر
علی گڑھ کی تاریکی نمایش میں ایک ڈرامہ پیش کر کے چندہ اکٹھا کیا۔


Body:علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سرسید احمدخان کے خوابوں کی تعبیر ہے جس کی پوری دنیا میں ایک پہچان ہے۔ اس ادارے کی تعمیر کے لئے سرسیداحمدخان نے ہر وہ ممکن کوشش اور طریقہ اپنایا جس کو وہ کرسکتے تھے۔

علی گڑھ کی تاریخی نمائش میں 8 ،10 فروری 1884 کو سرسید احمد خان نے اپنے پیروں میں گھنگرو باندھ کر ایک ڈرامہ پیش کیا جس میں علامہ شبلی نعمانی جیسی شخصیت بھی موجود تھی اور علی گڑھ نمایش میں ہی ایک کتابوں کی دکان بھی لگائی تھی۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی شعبہ رابطہ عامہ کے ایسوسی ایٹ ممبر انچارج ڈاکٹر راحت ابرار نے خصوصی گفتگو میں بتایا سرسید احمد خان نے اس ادارے کے قیام کے لئے جو بھی ممکن امکان ہو سکتے تھے جو بھی طریقہ ہوسکتے تھے وہ سب اپنائے۔

ان کا سب سے پہلا کام یہ جو ادارہ قائم کیا اس کا جو بنیادی تصور ہے وہ ہے اپنی مدد آپ۔ اپنی مدد آپ کے لئے انہوں نے چندہ شروع کیا اور کہا کہ جو لوگ کالج کی جو بانڈری وال ہے (آج بھی نام لکھا ہوئے ہیں) جو شخص 25 روپے دے گا اس کا نام بانڈری وال پر لکھا جائے گا اور جو شخص 250 روپیہ دے گا اس کا نام ہوسٹل کے کمروں پر کلاس روم پر لکھا جائے گا اور جو شخص 1500 روپیے دے گا اس کا نام اسٹریچی ہال پر لکھا جائے گا۔ یہ کم سے کم رقم تھی اس کے علاوہ انہوں نے بہت سے طریقہ اپنائے اور ان طریقوں میں انہوں نے ایک بہت بڑا حلقہ قائم کیا اور ظاہر ہے اس حلقہ میں ان کے جو دوست احباب تھے ان میں ان کو مرکزیت حاصل تھی۔

اور انہوں نے 24 مئی 1875 میں ایک چھوٹے سے مدرسہ سے اس کا آغاز کیا تھا، 1877 میں کالج کا سنگ بنیاد رکھا گیا اور 1920 کو، سرسید کا انتقال 1898 میں ہوا تھا اس کے 22 سال بعد 1920 میں اس کو یونیورسٹی کا درجہ حاصل ہوا اور آج اپنی سوسالہ جشن بنانے میں مشکور ہے۔





Conclusion:ڈاکٹر راحت ابرار نے مزید کہا میں بتادو سر سید احمد خان نے وہ تمام کام کیے جو ادارے کی ترقی کیلئے ضروری تھے۔

علیگڑھ میں آج نمائش چل رہی ہے۔ 8 ،10 فروری 1884 میں سرسیداحمدخان نے اسی نمائش میں ڈرامہ کیا تھا اس ڈرامے میں بڑے بڑے لوگ شامل تھے علامہ شبلی نعمانی جیسی بزرگ بھی شامل تھے اور ضلع کے افسران اس وقت ضلع مجسٹریٹ کینیڈی تھے اور موریاں تھے اس وقت سول سرونٹ۔ اس زمانے کے انگریز وہ بھی اس میں شامل تھے اور ایک افغانستان کا سیاح سنجر بھی آیا ہوا تھا اسی وقت اس نے بھی فارسی میں ایک نظم پیش کی اس طرح سرسید احمد خان نے اپنے پیروں میں گھنگرو باندھ کر چندہ جمع کرنے کا طریقہ اپنایا۔

کم سے کم اس سے لوگ ڈرامہ کو دیکھ کر تھیٹر میں دیکھ کر لوگ پیسے دیں گے ظاہر ہے اس کا ٹکٹ بھی تھا۔ سرسید احمد خان نے علی گڑھ کی تاریخی نمائش میں ایک کتاب کی دکان بھی لگائی اور بھی کام کیے جس سے اس ادارے کی توسیع اور ترقی ہوسکے۔ سب سے بڑا کام انکا مسلم یونیورسٹی آج جو ہم دیکھ رہے ہیں وہ سرسید کی خوابوں کی تعبیر ہے اور پوری دنیا میں اس کی پہچان ہے، علی گڑھ کی بھی۔

۱۔بائٹ۔۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر راحت ابرار۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسوسی ایٹ ممبر انچارج۔۔۔۔۔۔شعبہ رابطہ عامہ۔۔۔۔۔۔ اے ایم یو۔






Suhail Ahmad
7206466
9760108621
Last Updated : Mar 1, 2020, 12:44 AM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.