امراؤ جان ادا پر پہلی فلم کمال امروہوی نے 1972 میں پاکیزہ فلم بنائی تھی جس میں اہم کردار اداکارہ مینا کماری نے ادا کیا تھا۔ سنہ1981 میں مشہور فلم ہدایت کار مظفر علی نے امراؤ جان نام سے فلم بنائی جس میں امراؤ جان کے کردار میں اداکارہ ریکھا نظر آئیں۔
اس فلم کے 25 برس بعد 2006 میں فلم ہدایت کار جے پی دتّا نے دوبارہ امراؤ جان فلم بنائی جس میں امراؤ جان کے کردار کو اداکارہ ایشوریہ رائے نے ادا کیا۔ اس طرح سے امراؤ جان کی داستاں سنیما پردوں سے ہوتے ہوئے آج کی نئی نسل کے مابین مقبول ہے۔
کہا جاتا ہے کہ محفلوں کی شان ہردلعزیز امراؤ جان کی زندگی کے آخری لمحات کافی مشکلات میں گزرے تو انہوں نے بنارس کا رخ کیا اور یہیں ان کا انتقال ہوگیا جس کے بعد فاطمان قبرستان میں دفن ہوئیں۔ لیکن بنارس ہندو یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے صدر پروفیسر آفتاب احمد آفاقی اس بات سے انکار کرتے ہیں، وہ بتاتے ہیں کہ مرزا ہادی رسوا نے امراؤ جان کے نام سے جس کردار کا ذکر کیا ہے وہ صرف تصوراتی نام ہے حقیقت میں اس نام سے کسی بھی طوائف کا ذکر نہیں ملتا ہے۔
پروفیسر آفاقی کہتے ہیں کہ 'کہا جاتا ہے کہ فیض آباد سے اغوا امیرن نام کی لڑکی کا کردار امراؤ جان کے نام سے موسوم ہے وہ بھی محض خیالی ہے۔ حقیقت میں مرزا ہادی رسوا کی خود ساختہ کہانی ہے جس کا سچائی سے کوئی واسطہ نہیں ہے'۔
انہوں نے کہا کہ بنارس میں امراؤ بیگم لکھنوی کی قبر اور اس کو مقبرہ کی شکل دینا تعجب خیز ہے۔ بنارس میں امراؤ جان کی قبر ہونے سے انہوں نے صاف انکار کیا ہے اور کہا تاریخ میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ممکن ہے اس نام کی کسی اور طوائف کی قبر ہوسکتی ہے اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔
معروف اردو محقق پروفیسر نسیم احمد کہتے ہیں کہ امراؤ جان کی قبر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ بنارس، لکھنؤ اور دہلی میں ہے لیکن سچائی یہ ہے کہ سبھی محققین امراؤ جان کی قبر کے ہونے سے انکار کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ امراؤ جان ایک کردار ہے جس کا سچائی سے کوئی واسطہ نہیں ایسے میں ان کی قبر دریافت کرنا حیران کن ہے۔ مختلف اردو محققین کا ماننا ہے کہ امراؤ جان اردو کی پہلی ناول ہے جبکہ بعض لوگ ڈپٹی نذیر احمد کی ناول کو اردو کا پہلا ناول بتاتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ جب مصنف مرزا ہادی رسوا سے امراؤ جان ملیں تو انھوں نے خود اپنی پوری داستان ان کو بتائی تھی جس پر مصنف نے انیسویں صدی کی لکھنوی تہذیب کو بہت ہی عمدہ طریقے سے بیان کیا ہے۔
اس ناول میں سماج کے حقائق کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ ناول کے مطابق فیض آباد کی رہنے والی امیرن کا واقعہ امراؤ جان نام سے بیان کیا گیا لیکن برطانوی سامراج کے دور کی تاریخ میں امیرن کا ذکر نہیں ملتا ہے۔
ناول میں بیان کیا گیا ہے کہ فیض آباد کے دلاور خان نامی ایک شخص امیرن کے والد سے بدلہ لینے کے لیے امیرن کو اغوا کر لیتا ہے بعد میں وہ امیرن کو لکھنو کے ایک کوٹھے پر بیچ دیتا ہے یہاں امیرن کو نیا نام مل جاتا ہے اور وہ ہے امراؤ جان ادا۔
امیرن کی عمرہ بڑھی تو کلاسیکل ڈانس و میوزک رقص کے فن کو سیکھتی رہیں بعد میں جب وہ بھاگ کر فرخ آباد کی جانب جاتی ہیں اور پولیس ان پر حملہ کر دیتی ہے تب پتہ چلتا ہے کہ وہ فیض کا ایک ڈاکو ہے اور برطانوی دستاویزوں میں بھی اس ڈاکو کا ذکر ملتا ہے۔
ان کی زندگی میں ایسے ہی کئی موڑ آتے ہیں اسے کبھی خوش تو کبھی غم کے ساگر میں لے جاتے ہیں ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب وہ فیض آباد پہنچ کر اپنی ماں سے ملتی ہیں لیکن ان کا چھوٹا بھائی جس سے وہ بچپن میں اپنی جان سے بھی زیادہ پیار کرتی تھیں اس نے بھی امیرن کو اپنانے سے انکار کردیا تھا۔