مرادآباد: مرادآباد کے مشہور مصنف اور بین الاقوامی سیاست کے جانکار مشرف علی نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے اسرائیل اور حماس جنگ کی حقیقت سے واقف کروایا۔ مشرف علی کے مطابق حماس، اسرائیل کے ذریعے ہی پیدا کیا گیا ایک گروپ ہے جس کا استعمال اسرائیل کر رہا ہے اور حماس، اسرائیل کے بہکاوے میں آ کر خود ہی اس کے جال میں پھنس گیا اور اب اسرائیل، حماس کی آڑ لے کر فلسطین کو تباہ و برباد کررہا ہے۔ اس بات کو مشرف علی نے کچھ اس طرح سمجھایا کہ اسرائیل کے حملوں میں حماس کے چند ہی لوگ مارے گئے ہیں، باقی ہزاروں کی تعداد میں مرنے والے فلسطینی بچے اور خواتین ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اسرائیل کا مقصد فلسطینی عوام کی نسل کو برباد کرنا ہے اس لیے وہ اپنے حملوں میں ہسپتالوں اور اسکولوں کو لگاتار نشانہ بنا رہا ہے۔ اسرائیل گاہ بگاہ فلسطین کے علاقوں پر قبضہ کرنے کے لیے یہ حرکتیں کرتا رہا ہے۔ ابھی حماس کے حملے سے پہلے ہی اسرائیل نے جولائی میں ایک پناہ گزین کیمپ میں پرچے بٹوا کر اگاہ کیا تھا کہ وہ لوگ یہ جگہ خالی کر دیں اور اس کے بعد ہی فورا وہاں حملہ کیا جاتا ہے اور اس میں 10 سے 12 لوگ جان بحق ہو جاتے ہیں اور اسرائیل اس جگہ پر اپنا قبضہ کر لیتا ہے اسرائیل کا یہی طریقہ صدیوں سے چلا آ رہا ہے اور اب اسرائیل غزہ پر حملہ کر کے اس علاقے کو خالی کرا کر اس پر بھی اپنا قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ انہوں نے تاریخ کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ کس طرح روس اور یورپ کے لوگ یہودیوں کی جان کے دشمن بن گئے تھے ان کا ماننا تھا کہ عیسیٰ مسیح کو صلیب پر چڑھانے کے پیچھے یہودیوں کا ہی ہاتھ ہے۔ اس طرح جان بچا کر وہاں سے بھاگے یہودیوں کو فلسطینی عربوں کا سہارا ملا اور انہوں نے اپنے ملک میں اُن کو پناہ دی۔ اس کو اس طرح بھی سمجھ سکتے ہیں کہ فلسطینی عربوں نے یہودیوں کو کرایہ دار کے طور پر اپنے گھر میں پناہ دی اور اب وہی اسرائیل اپنی طاقت کا نا جائز استعمال کرکے فلسطینیوں کو انہی کے گھر سے نکالنے کی ناپاک سازش کر رہا ہے۔
مشرف علی کے مطابق یہ لڑائی مذہب کے نام پر نہیں لڑی جا رہی ہے بلکہ مذہبی یہودی تو خود اس جنگ کے خلاف ہیں اور امریکہ میں اس جنگ کو روکنے کے لئے مظاہرے کر رہے ہیں، مگر یہودی وادی یعنی یہودیوں کا وہ گروپ جو شدّت پسند ہے وہ ان حالات کے لئے ذمےدار ہے۔ یہودیوں کے اس گروپ نے ایک الگ یہودی ملک بسانے کی سوچی اور دھیرے دھیرے فلسطین کے علاقوں پر قبضہ کرنا شروع کر دیا جو آج تک جاری ہے۔ 1850 سے پہلے فلسطین میں محض چار فیصد ہی یہودی بستے تھے اور 86 فیصد عرب تھے مگر 1897 کے بعد یہودی 35 فیصد ہو گئے۔ اور اب حالات یہ ہیں کہ اسرائیل جب جتنی جگہ پر قبضہ کرنا چاہتا ہے وہ جنگ کے حالات پیدا کر کے قابض ہو جاتا ہے۔
اسرائیل اور حماس کے بیچ جنگ کی خاص وجہوں کا ذکر کرتے ہوئے مشرف علی بتاتے ہیں کہ اسکی پہلی وجہ ہے اسرائیل حمله کرنے کے بعد افرا تفری اور ڈر کا ماحول بناکر غزہ پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ دوسری وجہ وہ مانتے ہیں کہ فلسطین کے سمندر میں گیس کا ذخیرہ موجود ہے جس کی قیمت تقریبا 500 بلین ڈالر ہے اور اس کو حاصل کرنا امریکہ اور اسرائیل کا مقصد ہے جس سے اسرائیل اقتصادی طور پر مزید مضبوط ہو جائے۔ تیسری وجہ وہ مانتے ہیں کہ بین گرین نہر جو سویج نہر کے متوازی چل رہی ہے اس نہر کو آگے لے جا کر میڈیٹیرین سی میں ملانا ان کا مقصد ہے کیونکہ ابھی سویج نہر کے ذریعے امریکہ اور فلسطین کو میڈیٹیرین سی میں جانے کے لیے مصر کو پیسے دینے پڑتے ہیں۔ اور بین گرین نہر گازہ کے علاقے سے ہو کر نکلتی ہے اس لیے اسرائیل غزہ پر اپنا قبضہ کرنا چاہتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اے ایم یوکےغیرمستقل ملازمین کا تابوت کے ساتھ مظاہرہ
مشرف علی نے اسرائیل اور فلسطین کی جنگ پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ اسرائیل حالانکہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو چکا ہے اور وہ حماس کے بہانے فلسطین کے ایک بڑے حصے پر تقریبا قبضہ جما چکا ہے لیکن ساتھ ہی ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ اسرائیل اپنے منصوبوں میں پوری طرح کامیاب نہیں ہوگا کیونکہ مستقبل میں چین عرب ممالک کو ساتھ لے کر فلسطین کے ساتھ کھڑا ہونے کی پلاننگ کر رہا ہے جس کے بعد اسرائیل پر کچھ دباؤ بنے گا اور وہ اپنے حملوں میں کمی لا سکتا ہے۔