ETV Bharat / state

'موت کے فوٹو گرافر' اب کیا کر رہے ہیں؟

ریاست اترپردیش کا شہر بنارس دنیا کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک ہے۔ اس شہر میں دریائے گنگا کے ساحل پر 84 گھاٹ بنے ہوئے ہیں، جن میں سے دو گھاٹ لاشوں کو نذرآتش کرنے اور آخری رسومات ادا کرنے کے لئے مخصوص ہیں۔

موت کے فوٹو گرافر اب کیا کر رہے ہیں؟
موت کے فوٹو گرافر اب کیا کر رہے ہیں؟
author img

By

Published : Mar 6, 2020, 5:29 PM IST

Updated : Mar 6, 2020, 7:14 PM IST

دریائے گنگا کے کنارے بنے گھاٹوں کو ہندؤں کے عقیدے کے مطابق مقدس سمجھا جاتا ہے، ان گھاٹوں پر دور دراز علاقوں سے ہندو مذہب کے پیروکار پوجا اور غسل کرنے آتے ہیں۔ ان میں سے منیکر کے گھاٹ پر میتوں کو نذرآتش کیا جاتا ہے اور آخری رسومات ادا کی جاتی ہے۔

دیکھیں ویڈیو

ہندو مذہب کے پیروکاروں کا عقیدہ ہے کہ جس شخص کی موت بنارس میں ہوجائے یا اس کی آخری رسومات بنارس میں ادا کی جائے تو اسے دوسرے جنم سے آزادی مل جاتی ہے۔

منیکر کا گھاٹ پر کئی ایسے افراد بھی موجود ہیں جو اپنی شناخت ظاہر نہیں کرنا چاہتے ہیں اور خود کو موت کا فوٹوگرافر کہتے ہیں، انہیں میں سے رگھویر پانڈے بمشکل ای ٹی وی بھارت سے بات کرنے کے لیے تیار ہوئے۔

انہوں نے بتایا کہ اب گھاٹ پر فوٹوگرافی ترک کر دیا ہوں، اس کی کئی وجوہات بتاتے ہوئے کہا کہ موبائل کے ایجاد سے فوٹوگرافی ختم ہوچکی ہے، کمائی پر خاص اثر پڑا ہے۔

دوسری وجہ یہ بتایا کہ میتوں کی فوٹوگرافی میں غم و دکھ کا ماحول رہتا تھا۔ رگھویر نے کہا کہ فوٹوگرافی ایک پیشن ہے جو ہمیشہ زندہ رہے گا۔

انہوں نے کہا کہ اب شادی میں فوٹو گرافی کے لئے جاتا ہوں ہوں اور خالی اوقات میں اسی گھاٹ پر پکوڑے بیچتا ہوں۔

انہوں نے نے ای ٹی وی بھارت سے کہا کہ ہم فوٹوگرافروں کے بھی قواعد ہوتے تھے، کسی بھی نوجوان کی میت کی فوٹو گرافی کے پیسے نہیں لیتے تھے، انہوں نے کہا کہ غریب لوگوں سے بھی پیسے نہیں لیتے تھے حتیٰ کہ اگر کوئی غریب میت آتی تھی تو خود ہی پیسوں کا انتظام کر کے اس آخری رسومات ادا کرتے تھے۔

انہوں نے بتایا کی موبائل کیمرہ سے پہلے فوٹوگرافی میں اچھا پیسہ تھا، ایک دن میں ہزار سے لے کر پندرہ سو تک ایک فوٹوگرافر کما لیتا تھا لیکن اب سو دو سو روپے بھی مشکل ہے یہی وجہ ہے۔

کئی فوٹوگرافروں نے اپنا پیشہ بدل دیا اور کچھ فوٹوگرافر ابھی بھی گھاٹ کا چکر لگاتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کی میت کے ساتھ فوٹوگرافر کے مختلف مقاصد ہوتے ہیں بعض لوگ اسے دستاویز کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور بعض یادگار کے طور پر رکھ لیتے ہیں۔

دریائے گنگا کے کنارے بنے گھاٹوں کو ہندؤں کے عقیدے کے مطابق مقدس سمجھا جاتا ہے، ان گھاٹوں پر دور دراز علاقوں سے ہندو مذہب کے پیروکار پوجا اور غسل کرنے آتے ہیں۔ ان میں سے منیکر کے گھاٹ پر میتوں کو نذرآتش کیا جاتا ہے اور آخری رسومات ادا کی جاتی ہے۔

دیکھیں ویڈیو

ہندو مذہب کے پیروکاروں کا عقیدہ ہے کہ جس شخص کی موت بنارس میں ہوجائے یا اس کی آخری رسومات بنارس میں ادا کی جائے تو اسے دوسرے جنم سے آزادی مل جاتی ہے۔

منیکر کا گھاٹ پر کئی ایسے افراد بھی موجود ہیں جو اپنی شناخت ظاہر نہیں کرنا چاہتے ہیں اور خود کو موت کا فوٹوگرافر کہتے ہیں، انہیں میں سے رگھویر پانڈے بمشکل ای ٹی وی بھارت سے بات کرنے کے لیے تیار ہوئے۔

انہوں نے بتایا کہ اب گھاٹ پر فوٹوگرافی ترک کر دیا ہوں، اس کی کئی وجوہات بتاتے ہوئے کہا کہ موبائل کے ایجاد سے فوٹوگرافی ختم ہوچکی ہے، کمائی پر خاص اثر پڑا ہے۔

دوسری وجہ یہ بتایا کہ میتوں کی فوٹوگرافی میں غم و دکھ کا ماحول رہتا تھا۔ رگھویر نے کہا کہ فوٹوگرافی ایک پیشن ہے جو ہمیشہ زندہ رہے گا۔

انہوں نے کہا کہ اب شادی میں فوٹو گرافی کے لئے جاتا ہوں ہوں اور خالی اوقات میں اسی گھاٹ پر پکوڑے بیچتا ہوں۔

انہوں نے نے ای ٹی وی بھارت سے کہا کہ ہم فوٹوگرافروں کے بھی قواعد ہوتے تھے، کسی بھی نوجوان کی میت کی فوٹو گرافی کے پیسے نہیں لیتے تھے، انہوں نے کہا کہ غریب لوگوں سے بھی پیسے نہیں لیتے تھے حتیٰ کہ اگر کوئی غریب میت آتی تھی تو خود ہی پیسوں کا انتظام کر کے اس آخری رسومات ادا کرتے تھے۔

انہوں نے بتایا کی موبائل کیمرہ سے پہلے فوٹوگرافی میں اچھا پیسہ تھا، ایک دن میں ہزار سے لے کر پندرہ سو تک ایک فوٹوگرافر کما لیتا تھا لیکن اب سو دو سو روپے بھی مشکل ہے یہی وجہ ہے۔

کئی فوٹوگرافروں نے اپنا پیشہ بدل دیا اور کچھ فوٹوگرافر ابھی بھی گھاٹ کا چکر لگاتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کی میت کے ساتھ فوٹوگرافر کے مختلف مقاصد ہوتے ہیں بعض لوگ اسے دستاویز کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور بعض یادگار کے طور پر رکھ لیتے ہیں۔

Last Updated : Mar 6, 2020, 7:14 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.