داغ دہلوی کے تعلق سے یہ مشہور ہے کہ جس مقدار ان کو شاگرد میسر ہوئے اتنے کسی اور شاعر کو نہیں مل سکے، ان کے شاگردوں کی فہرست طویل ہے جس میں سے علامہ اقبال، جگرمرادآبادی، سیماب اکبر آبادی اور احسن مارہروی قابل ذکر ہیں۔
ان معروف شعرا کو داغ دہلوی کی شاگردی کا شرف حاصل ہے۔ آج ان کے یوم وفات پر ای ٹی وی بھارت نے بنارس ہندو یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے صدر پروفیسر آفتاب احمد آفاقی سے خاص بات چیت کی۔ انہوں نے کہا کہ داغ دہلوی اردو غزل کے پائے کے شاعر تھے، انہوں نے اردو غزل کو ایک نئی سمت بخشی ہے جس طرح سے ادبی اصول و ضوابط کو ملحوظ نظر رکھتے ہوئے عام فہم شاعری کی ہے اس کی مثال ابتک کے شعرا میں نہیں ملتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ المیہ یہ ہے کہ داغ دہلوی کو اردو داں طبقہ نے اپنے حوالہ جات و تحقیقی مضامین میں شامل کرنا کم کردیا ہے جس کی وجہ سے نسل نو سے نہ صرف ایک بہترین شاعری اوجھل ہوتی جا رہی ہے بلکہ خود داغ دہلوی کی شخصیت بھی دور ہوتی جارہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ داغ دہلوی سے علامہ اقبال اپنی اصلاح کرواتے تھے اور یہی وجہ ہے کہ جب آپ علامہ اقبال کی ابتدائی شاعری کو پڑھیں گے تو اس میں داغ دہلوی کی شاعری کی جھلک ملے گی۔ انہوں نے داغ دہلوی کے کچھ اشعار کا بھی ذکر کیا اور بتایا کہ صرف یہی اشعار نہیں بلکہ داغ دہلوی کے بیشتر اشعار معنی خیز اور پرمغز ہیں، جو نسل نو کے لیے مشعل ہیں۔