ریاست اتر پردیش کے ضلع وارانسی کے درگاہ فاطمان میں استاد بسم اللہ خان کی پیدائش 104 واں یوم پیدائش منایا گیا.
اس موقع پر عالمی شہرت یافتہ شہنائی نواز استاد بسم اللہ خان کے اہل خانہ کے ساتھ مختلف سماجی و سیاسی شخصیات نے خراج تحسین پیش کرتے ہوئے استاد بسم اللہ کے خدمات کو یاد کیا۔
شہنائی نواز استاد بسم اللہ خان کی پیدائش 21 مارچ سنہ 1916 کو بہار کے ضلع بکسر کے ڈمراہ گاؤں میں ہوئی تھی، ابتدائی ایام سے ہی وہ اپنے چچا علی بخش کے پاس وارانسی آگئے اور انہی سے شہنائی بجانے کا ہنر سیکھا۔
سنہ 1947 میں لال قلعہ پر نصف شب میں بسم اللہ خان شہنائی بجا کر آزادی کا خیرمقدم کیا تھا اور پہلی بار جواہر لال نہرو نے انہیں استاد کہا تھا اور تب سے بسم اللہ خان کو استاد بسم اللہ خان کہا جانے لگا۔
بسم اللہ خان بنارس کے مندروں میں برسوں تک شہنائی نواز رہے اور ایام عزا میں درگاہ فاطمان سے کافی لگاؤ تھا، بسم اللہ خان جس مقام پر بیٹھ کر شہنائی بجاتے تھے اسی جگہ آج وہ مدفون ہیں، انہیں سنہ 2001 میں بھارت کے اعلی ترین شہری ایوارڈ بھارت رتن سے نوازا گیا، اس کے علاوہ پدم ویبھوشن اور پدم شری جیسے مختلف ایوارڈز سے بھی نوازے جا چکے ہیں۔
بسم اللہ خان کے پوتے آفاق حیدر نے ای ٹی وی بھارت سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 'حکومت مسلسل بھارت رتن بسم اللہ خان کو نظر انداز کر رہی ہے یہی وجہ ہے کہ ان کی مقبرےکا تعمیری کام اب تک مکمل نہیں ہوا افتتاح کا منتظر ہے۔
بسم اللہ خان کے بے حد قریبی ساتھی شکیل جادوگر نے بتایا کہ ہم مطالبہ کرتے ہیں 'کہ حکومت ہند بسم اللہ خان کے مجسمے کو کینٹ ریلوے اسٹیشن پر نصب کرے جس سے عوام کو ان کے بارے میں معلومات حاصل ہو۔
شیعہ رہنما فرمان حیدر نے بتایا کہ 'بسم اللہ خان ایسی شخصیت ہیں جنہوں نے پوری دنیا کو شہنائی کے ذریعے ایک ہی دھاگے سے جوڑ دیا تھا۔
فرمان حیدر نے مزید کہا کہ 'ایران میں اگر چہ موسیقی نا پسند کیا جاتا ہے لیکن بسم اللہ خان کے نام سے ایک ہال منسوب ہے انہوں نے کہا کہ استاد بسم اللہ خان کسی بھی تعارف کے محتاج نہیں ہیں لیکن اپنے ہی وطن میں ان کے مقبرے کا افتتاح نہ ہونا المیہ ہے۔
واضح رہے کہ سنہ 2014 میں سماجوادی حکومت نے بسم اللہ خان کے مقبرہ کی تعمیر کے لیے بجٹ منظور کیا تھا لیکن ابھی تک تعمیراتی کام نامکمل ہے۔