علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی خواتین ملازمین نے ایک احتجاجی مظاہرہ کیا جس میں اے ایم یو ٹیچنگ اسٹاف کلب سے باب سید تک پیدل چل کر 15 دسمبر کی رات کو یونیورسٹی کے طلباء پر پولیس کی زیادتی کی مذمت کی اور اے ایم یو انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ وہ جلد سے جلد پولیس کے خلاف ایف آئی آر درج کروائے نیز پولیس کے ذریعے اے ایم یو طلبہ پر درج سبھی ایف آئی آر اور مقدمے واپس کروائے۔
اس بابت اے ایم یو کی ایک خاتون پروفیسر 15 دسمبر کی رات کو ہونے والے واقعہ کے بارے میں نے نام نا ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ 'اے ایم یو طلباء پر پولیس حملے کی ہم مذمت کرتے ہیں اور یونیورسٹی انتظامیہ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ طلبہ کے خلاف جو ایف آئی آر درج ہوئی ہیں وہ سب ختم کئے جائیں اور یونیورسٹی انتظامیہ کو چاہیے پولیس کے خلاف ایف آئی آر درج کروائے اور اس پورے معاملے کی عدالتی تحقیقات بھی ہو۔
وہیں اے ایم یو کی ایک دیگر خاتون پروفیسر نے پولیس سے درخواست کرتے ہوئے کہا کہ 'ہمیں یہ لگتا ہے کہ جب بھی ہم سو نمبر ڈائل کریں گے تو ہماری حفاظت ہمارے پاس ہوگی، میں ایک سچ بات بتانا چاہتی ہوں میری بیٹی جس کی عمر نو برس ہے جب بھی وہ پولیس یا آرمی والوں کو دیکھتی تھی وہ ان کو سلام کرتی تھی اور جب اب وہ ٹی وی پر پولیس کو دیکھتی ہے تو کہتی ہے امی پولیس یہ ہوتی ہے۔ اس لیے میں پولیس سے درخواست کرتی ہوں جو ہمارا یقین پولیس پر تھا وہ دوبارہ واپس لائیں، جو لوگ یہ سوچتے ہیں ہندو مسلم میں لڑائی کروا کے ہم آگے آجائیں گے تو وہ ہمارے ملک کو کمزور بنا رہے ہیں۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی شعبہ انگریزی کی خاتون پروفیسر نے بتایا 'ہمارا مسئلہ وہی ہے یہ لڑائی لمبی ہے، ہم کسی بھی طرح کا امتیاز نہیں چاہتے، ملک کے سب لوگ برابر ہیں، ہم لوگ اچھے کام کریں، اچھے سے رہیں گے، نوکریاں سب کو ملے، ملک کی معیشت آگے بڑھے،
انہوں نے مزید کہا کہ 'ہم نہیں چاہتے کہ اس طرح کی لڑائی اور فسادات ہوں اور ملک کا نام بد نام ہو، ہم اپنے ملک سے بہت زیادہ محبت کرتے ہیں۔