تنظیم کے ضلع صدر کلیم تیاگی اور کنوینر تحسین علی نے عدالت عظمیٰ کے فیصلے کو منصفانہ قرار دیا ہے اور کہا اردو کو مذہب کے دائرے سے مستثنیٰ کیا جانا چاہیے، انہوں نے کہا ہے کہ اردو کسی مذہب کی زبان نہیں ہیں بلکہ ایک تہذیب اور ادب کی زبان ہے اردو کو کسی مذہب کے ساتھ جوڑنا یا کسی اردو استاد کی خدمات کو صرف اس لئے ختم نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ وہاں اردو پڑھنے والے بچے موجود نہیں ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سرکار اردو کو مسلمانوں کی زبان سمجھتی ہے۔
یو ڈی او کے پبلکسٹی انچارج حاجی اوصاف احمد نے میٹنگ کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عدالت نے بالکل صحیح فیصلہ دیا ہے اردو کو بطور زبان پڑھایا جا سکتا ہے، ایک اردو ٹیچر کو محض اس لئے نہیں ہٹایا جاسکتا کہ وہا مسلم بچے نہیں ہیں۔
انہوں نے الہٰ آباد ہائی کورٹ کے جسٹس اشونی کمار مشرا کو مبارکباد دی جس میں انہوں نے کہا کے کسی خاص زبان کو کسی خاص مذہب سے نہیں جوڑا جا سکتا ہے
ماسٹر شہزاد علی نے کہا کہ پہلی نظر میں اس عدالت کا موقف ہے کہ کسی خاص زبان کو کسی خاص مخصوص مذہب سے نہیں جوڑا جاسکتا اور اردو کو بطور زبان سکھایا جا سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: انگریزوں کی طرح سماجی انتشار پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہے بی جے پی: اکھلیش
یہاں تک کہ ان علاقوں میں جہاں بہت کم مسلمان ہیں انہوں نے کہا کہ ایک اردو استاد کی خدمات اس لیے ختم کر دی گئی کہ جہاں وہ تینات تھے وہاں مسلم آبادی بیس فیصد سے کم ہے۔
انہوں نے عدالت سے رجوع کیا اور عدالت نے منصفانہ فیصلہ دے کر اردو کو اس کا حق دیا ہے عدالت نے بنیادی تعلیم کے محکمہ کے ایڈیشنل چیف سیکرٹری اترپردیش کو نوٹس بھی جاری کیا ہے کہ اس سے متعلق اپنی پالیسی جلد از جلد واضح کریں۔