لکھنو میں دو روزہ سیمینار چار نشستوں پر مشتمل تھا۔ جس میں درجنوں مقالہ نگاروں نے متعدد عناوین سے اپنے مقالے پیش کیے اور اردو صحافت کے درجے کو ماضی اور مستقبل میں چیلنجیز کا تزکرہ کیا۔سیمینار کی پہلی نشست جس کی صدارت کرتے ہوئے پروفیسر احمد محفوظ نے اپنی صدارتی خطبہ میں کہا کہ اردو صحافت کی تاریخ کے دو سو برس مکمل ہونے پر اردو اکادمی کے 50 برس مکمل ہونے پر سیمینار کا اہتمام کر کے آکادمی نے ایک بڑا کام انجام دیا ہے جس مین صحافت کے میدان میں ہم نئی نسل کے تئین بیداری و چیلینجز و تقاضوں سے اگاہ کرتے رہیں۔ کیونکہ صحافی وہ شخص ہوتا ہے جو سماج اور روایتی اقدار کے نبض کو پہچانتا ہے۔
اردو صحافت کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ زندہ قوموں کی نشانیاں ہیں کہ وہ اپنے ماضی کو یاد کر کے مستقبل کے لیے لائحہ عمل تیار کرتے ہیں۔ جنگ آزادی کے دوران اردو زبان میں صحافت نے جو کردار ادا کیا ہے۔اس کی نظیر نہیں ملتی، اردو صحافیوں نے جان گنوائی ہیں خاص طور سے مولوی محمد باقر حسین ایسے صحافی جن کو شہید کر دیا گیا۔ یہی نہیں بلکہ کی ایسی تعداد ہزاروں میں ہےجو صحافی اردو زبان سے وابستہ تھے اور ان کو طرح طرح کی اذیتیں دی گئیں۔
اکادمی کے چیئرمین چوہدھری کیف الوری نے ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا منصوبہ ہے کہ ہر گھر میں اردو بولی جائے اور پڑھی جائے اس کے لیے ہم اپیل کرتے ہیں کہ اردو اخبارات میگزین اپنے گھروں میں منگائیں تاکہ اردو کے فروغ میں سبھی کا کردار شامل ہوسکے انہوں نے کہا کہ اردو کوچنگ سینٹر ریاست کے الگ الگ علاقوں میں قائم ہے جس کی تعداد پچاس ہے اور امید ہے کہ مستقبل میں اس کی تعداد میں مزید اضافہ کیا جائے گا۔
مزید پڑھیں:Hajj 2023 اتر پردیش سے عازمین حج کی آخری پرواز روانہ
پروگرام کا اختتام اردو اکادمی کے سکریٹری ایس ایم حسین کے شکریہ کے ساتھ کیا گیا۔ انہوں نے آئے ہوئے سبھی مہمانوں کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ گولڈن جوبلی کا پہلا پروگرام ختم ہوا ہے گولڈن جوبلی ختم نہیں ہے اس سے متعلق کئی پروگرام منعقد کئے جائیں گے جس کا اعلان جلد کیا جائے گا۔