اترپردیش میں بڑھتی آبادی پر قابو پانے کی حکومت کی کوشش کو نوجوان تو کچھ حد تک درست بتارہے ہیں، لیکن اس نئی آبادی پالیسی 2021-2030 کو ایک خاص طبقے سے منسلک کرنے پر نوجوانوں کو سخت اعتراض ہے۔
ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران معروف عالمِ دین مفتی انور علی قاسمی نے کہا کہ یوپی حکومت اس کے بہانے اپنی ناکامیوں کو چھپانے کی کوشش میں ہے۔ اس معاملے میں نوجوان طبقہ محتاط رخ اختیار کررہا ہے۔
سماجی کارکن افضل رانا کہتے ہیں کہ اترپردیش حکومت کا آبادی پر قابو پانے کا لائحہ عمل درست ہے لیکن اس کی نیت صاف نہیں ہے۔ حکومت کو روزگار و دیگر مسائل پر بھی توجہ دینی چاہئے۔
حال ہی میں اترپردیش کے محکمہ صحت نے خوشحال پریوار اسکیم کا اعلان پورے زور وشور سے کیا ہے۔ اس اسکیم کے تحت فیملی پلاننگ کے مختلف طریقوں پر عوامی بیداری پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس اسکیم کو کامیاب بنانے کے لئے مئو ضلع کے تمام 96 ہیلتھ سینٹرز پر تعینات تقریباً دو ہزار آشا ورکرز کو ذمہ داری دی گئی ہے۔
مزید پڑھیں: نئی آبادی پالیسی انسانی حقوق کے خلاف: دارالعلوم دیوبند
ہر آشا ورکر کو ایک نسبندی کرانے کا بھی ٹارگٹ دیا گیا ہے۔ کیا یہ پروگرام آبادی پر قابو پانے کی ایک کوشش ہے، اس سوال سے مئو کے چیف میڈیکل آفیسر انکار کرتے ہیں۔ لیکن خوشحال پریوار اسکیم میں درج مقاصد پر نظر ڈالیں تو یہ پاپولیشن کنٹرول بل کا ہی ایک حصہ محسوس ہوتا ہے۔ مئو کے علماء و دانشوران اس قدم کو اترپردیش کے 2022 اسمبلی انتخابات سے منسلک کرکے دیکھ رہے ہیں۔