اترپردیش کے دارالحکومت لکھنؤ کے پریس کلب میں پیس پارٹی کے قومی صدر ڈاکٹر ایوب انصاری نے پریس کانفرنس میں یوگی حکومت پر حملہ آور ہوتے ہوئے کہا کہ یہ سرکار مذہب کے نام پر تفریق کر رہی ہے۔
انہوں نے یوگی حکومت پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ سارے امیدوار میرٹ میں آتے ہیں اور روزگار کے قابل ہیں مگر سرکار نے ان کی نوکری میں روڑا لگا رکھا ہے۔ بھاجپا سرکار کو مذہب کے نام پر کوئی فرق نہیں کرنا چاہیے کیونکہ 76 ہزار اساتذہ کی تقرری کی جا رہی ہے جبکہ ہائی کورٹ نے اس پر روک لگا رکھی ہے۔
ایوب انصاری نے کہا کہ موجودہ حکومت کو کسی اساتذہ سے پریشانی نہیں ہے لیکن ایک خاص طبقے کے اساتذہ سے ضرور دقت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ الہ آباد ہائی کورٹ نے ان اساتذہ کے حق میں فیصلہ سنایا تھا لیکن یو پی سرکار عدالت عظمی میں فیصلے کو چیلینج کر دیا۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ مذہب کے نام پر تفریق کی جا رہی ہے۔ ہم اردو اساتذہ کے ساتھ ہیں اور ہر ممکن مدد کے لیے تیار ہیں۔
معلوم رہے کہ سنہ 2015 میں اکھلیش یادو سرکار نے پرائمری اسکولوں کے لیے 16460 عہدوں پر اسسٹنٹ ٹیچرز بھرتی نکالی، جس میں 4 ہزار اردو اساتذہ کی تقرری بھی ہونی تھی۔ سنہ 2017 میں 22 اور 23 مارچ کو کاؤنسلنگ ہوئی لیکن 23 مارچ کو ہی یوگی سرکار نے روک لگا دی تھی۔
تقرری پر کے بعد امیدواروں نے الہ آباد ہائی کورٹ کا رخ کیا۔ ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ 'سرکار دو ماہ میں سبھی امیدواروں کی تقرری کرے لیکن 'بیسک ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ' نے 12460 عہدوں پر تقرری کا حکم دے دیا لیکن چار ہزار اردو اساتذہ تقرری پر فیصلہ نہیں ہوا۔'
ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران شبانہ پروین نے بتایا کہ آر ٹی آئی کے ذریعے معلومات حاصل ہوئی ہے کہ صوبے کے تمام اسکولوں میں اردو اساتذہ کی ضرورت ہے کیونکہ وہاں بڑی تعداد میں طلبا اردو پڑھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سرکار جھوٹ بول رہی ہے کہ اردو کے طالب علم نہیں ہیں، جس وجہ سے اساتذہ تقرری کی ضرورت نہیں ہے۔ شبانہ پروین نے کہا کہ ہم لوگ اپنا حق حاصل کرکے رہیں گے۔ ابھی ہائی کورٹ سے کامیابی حاصل ہوئی ہے، امید ہے کہ سپریم کورٹ سے بھی ہمارے حق میں فیصلہ ہوگا۔ تقرری کے سلسلے سے تین سال قبل ہم لوگوں نے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ سے ملاقات کی اور انہوں نے بھروسہ بھی دلایا لیکن تقرری ابھی تک نہیں ہو پائی۔
قابل ذکر ہے کہ سنہ 2015 کو سماج وادی سرکار نے اسسٹنٹ ٹیچر کے 16460 عہدوں پر تقرری کے لئے لیٹر جاری کیا۔ ان میں سے 4 ہزار اردو اساتذہ کی تقرری بھی ہونی تھی۔
سنہ 2017 میں 22اور23 مارچ کو کاؤنسلنگ ہوئی۔
23 مارچ کو ہی 'یوگی سرکار' نے اردو اساتذہ تقرری پر روک لگائی
15 اپریل 2018 کو الہ آباد ہائی کورٹ نے یوگی حکومت کو دو ماہ میں تقرری کا حکم دیا۔
مئی 2018 میں یوگی حکومت نے 12460 بھرتی کو ہری جھنڈی دکھائی لیکن اردو اساتذہ تقرری پر کوئی فیصلہ نہیں لیا۔
8 اکتوبر 2018 کو اردو اساتذہ تقرری کو رد کر دیا گیا۔
قابل ذکر ہے کہ 'بیسک ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ' کے مطابق اتر پردیش کے پرائمری اسکولوں میں اردو پڑھنے والے تقریبا 87 ہزار طلبا ہیں، جنہیں پڑھانے کے لیے 15800 اساتذہ ہیں۔
اس سے صاف ظاہر ہے کہ ایک اساتذہ پر 6 طلبہ کو پڑھانے کی ذمہ داری ہے، جبکہ 'رائٹ ٹو ایجوکیشن' کے تحت 30 طلبا پر ایک استاد کی تقرری ہونی چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ ہوگی حکومت نے اردو اساتذہ تقرری کو رد کردیا تھا۔ اب دیکھنا ہوگا کہ پرینکا گاندھی کی یہ مہم یوگی حکومت پر کتنی کارگر ثابت ہوتی ہے؟