لکھنؤ: اترپردیش کے ضلع مظفر نگر کے اسکول میں ایک خاتون ٹیچر قابل اعتراض باتیں کہتے ہوئے ایک مسلم بچے کو کلاس کے دوسرے بچوں سے تھپڑ رسید کروا رہی ہے اور خاتون ٹیچر اس پر فخر بھی کر رہی ہے۔ جس کا ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہا ہے۔ یہ نفرت انگیز حرکت ضلع کے منصورپور تھانہ علاقے کے تحت کھباپور گاؤں کے ایک اسکول کا بتایا جارہا ہے۔ وہیں اس معاملے ایم آئی ایم کے صدر اویسی نے بھی ویڈیو شیئر کرکے یوگی حکومت پر سوال کھڑا کیا ہے اور کہا کہ اس بچے کے ساتھ جو ہوا اس کا ذمہ دار سی ایم یوگی آدتیہ ناتھ اور ان کی نفرت انگیز سوچ ہے، شاید اب اس مجرم کو آپ لکھنؤ مدعو کرکے انعام بھی دیں گے۔
ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد کھتولی سرکل آفیسر روی شنکر نے کہا کہ سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو کی تحقیقات کے بعد ابتدائی طور پر یہ حقائق سامنے آئے ہیں کہ یہ ویڈیو مظفر نگر کے تھانہ منصور پور گاؤں کے کھباپور گاؤں کی ہے، جہاں ایک خاتون نے اپنے ہی گھر میں ایک اسکول چلا رکھا ہے اور یہ ویڈیو اسی اسکول کا ہے۔ جس میں خاتون ٹیچر کی جانب سے اسکول کا کام نہ کرنے پر ایک بچے کو دوسرے بچے سے پٹوایا جا رہا ہے اور ویڈیو میں کچھ قابل اعتراض باتیں بھی کی جا رہی ہیں، جس کا نوٹس لیتے ہوئے قانونی کارروائی کی جائے گی۔
وہیں دوسری جانب ایم آئی ایم کے صدر اسدالدین اویسی نے سماجی رابطہ سائٹ ایکس پر ایک سلسلہ وار ٹویٹ میں لکھا کہ یہ ویڈیو اتر پردیش کا ہے جہاں ٹیچر ایک مسلمان بچے کو کلاس کے باقی بچوں سے پٹوا رہی ہے اور اسے اس پر فخر بھی ہے۔ بچے کے والد نے بچے کو اسکول سے نکال دیا اور تحریری طور پر دیا کہ وہ کوئی کارروائی نہیں کرے گا۔ والد کا کہنا ہے کہ انھیں انصاف کی کوئی امید نہیں ہے اور انھیں خوف ہے کہ اگر وہ کچھ کہیں گے تو ماحول خراب ہو جائے گا۔ اویسی نے سی ایم یوگی کو ٹیگ کرتے ہوئے لکھا کہ جو جرم کرے گا اسے ٹھوک دیا جائے گا، یہ یوگی کی پالیسی ہے، ہے نا؟ تو اب پولیس اس ٹیچر کو کیوں کاروائی نہیں کر رہی ہے؟ اور اس بچے کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا اس کا ذمہ دار یوگی آدتیہ ناتھ اور ان کی نفرت انگیز سوچ سے۔ شاید آپ اس مجرم کو لکھنؤ بُلا کر انعام سے بھی نوز دیں گے۔ اویسی نے کہا کہ جوینائل جسٹس 2015 ایکٹ کے سیکشن 75 کے تحت سخت کارروائی کرنا پولیس کا کام ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
اویسی نے کہا کہ نہ جانے کتنے مسلمان بچے زندگی بھر خاموشی سے ذلت برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ بات عام ہے کہ اسکول میں مسلمان بچوں کو جہادی اور پاکستانی کہہ کر چھیڑا جاتا ہے۔ حکومت بچے کے خاندان کو معاوضہ دے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ مسلمان بچے محفوظ ماحول میں تعلیم حاصل کرسکیں۔
اس کے علاوہ اویسی نے قومی کمیشن برائے تحفظ حقوق اطفال اور قومی انسانی حقوق کمیشن کو ٹیگ کرتے ہوئے لکھا کہ دوسری جگہوں پر یہ ادارہ فوراً ایکشن لیتا ہے لیکن یہاں کیا ہوا؟ اور نوٹس تک جاری نہیں کیا۔ جبکہ بچوں پر تشدد کیا جا رہا ہے لیکن پولیس ملزمان کو چھوڑ دیتی ایسے میں پولیس کے خلاف کارروائی کیوں نہیں ہوئی؟ انھوں آگے لکھا کہ بی جے پی کی مدھیہ پردیش حکومت نے ایک چھوٹی سی بات پر ایک اسکول کو بلڈوز کر دیا تھا اور یہاں ایک بچے کو اس کے مذہب کی بنیاد پر مارا پیٹا جا رہا ہے، اس کے باوجود ان کی طرف سے ایک مذمتی ٹویٹ تک نہیں آتا۔