لکھنؤ: 22 جنوری کو ایودھیا میں رام مندر کا افتتاح ہونا ہے۔ رام مندر معاملے پر ماحول خراب کرنے اور رام مندر کے خلاف لوگوں کو بھڑکانے کا الزام لگاتے ہوئے یو پی اے ٹی ایس نے مہاراشٹر کے اورنگ آباد کے ایک گاؤں میں چھاپہ مارا لیکن نوجوان موقعے سے فرار ہو گئے۔ اے ٹی ایس کا دعویٰ ہے کہ اس گاؤں کے 11 نوجوان پر ایودھیا کا ماحول خراب کرنے کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار تھے۔ اب اے ٹی ایس نے ان تمام 11 لوگوں کو اپنے ہیڈکوارٹر میں پوچھ گچھ کے لیے طلب کیا۔ اے ٹی ایس نے اس کے لیے نوٹس جاری کیا ہے۔
یوپی اے ٹی ایس کا کہنا ہے کہ رام مندر کے افتتاح کے پیش نظر نگرانی اور چوکسی بڑھا دی گئی ہے۔ اے ٹی ایس سوشل میڈیا سے لے کر گراؤنڈ زیرو تک ہر چیز پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ ایجنسی کے مطابق اسے اطلاع ملی تھی کہ 'ایودھیا کا ماحول خراب کرنے اور وہاں کچھ بڑا کرنے کے مقصد سے 22 جنوری کے آس پاس مہاراشٹر کے اورنگ آباد ضلع کے چھترپتی سمبھاج نگر گاؤں کے رہنے والے مرزا سیف بیگ، عبدالواحد، یاسر، ضیاء الدین صدیقی، ایس کے خالد، طاہر، حبیب سمیت 11 نوجوان سوشل میڈیا پر لوگوں کو بھڑکا رہے تھے۔'
یو پی اے ٹی ایس کا دعویٰ ہے کہ 'ملزمین لوگوں کو قربانیاں دینے کے لیے بھی اکسا رہے تھے تاکہ رام مندر نہ بنے۔ اطلاع ملتے ہی یوپی اے ٹی ایس کی ٹیم مہاراشٹر کے چھترپتی سمبھاجی نگر پہنچی اور ان نوجوانوں کے گھروں پر چھاپہ مارا۔ تاہم اطلاع ملتے ہی سبھی وہاں سے فرار ہوگئے۔'
مزید پڑھیں: فرضی مسلم پہچان سے بم کی دھمکی دینے والے دو افراد گرفتار
رام مندر بی جے پی کے لیے انتخابی موضوع: رکن اسمنلی ضیاء الرحمان برق
رام مندر کے افتتاح کے بعد بابری مسجد کے لیے ایک نئی جد وجہد شروع ہوگی: شفیق الرحمان برق
ذرائع کے مطابق ''یوپی اے ٹی ایس کے چھاپے کے دوران ان نوجوانوں کے گھر سے ملے الیکٹرانک آلات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ یہ تمام نوجوان نہ صرف لوگوں کو ایودھیا اور رام مندر کے خلاف بھڑکا رہے تھے بلکہ ان سب نے کچھ بڑا کرنے کا منصوبہ بھی بنایا تھا۔ رام مندر کے خلاف ایک سازش رچی گئی۔'' اے ٹی ایس کے مطابق تمام ملزمان کے گھروں پر نوٹس چسپاں کر دیے گئے ہیں اور انہیں 18 جنوری کو اے ٹی ایس ہیڈکوارٹر میں پوچھ گچھ کے لیے بلایا گیا ہے۔ اے ٹی ایس کا کہنا ہے کہ اگر یہ سب ہیڈ کوارٹر نہ آئے تو گرفتار کر لیا جائے گا۔
واضح رہے کہ اس معاملے پر نوجوانوں کا موقف تاحال سامنے نہیں آیا ہے لیکن ظاہری طور پر یہ پورا معاملہ سوشل میڈیا پر رام مندر اور بابری مسجد کے موضوع پر لکھنے سے متعلق لگتا ہے۔