علی گڑھ: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے زیر اہتمام تین سو سالہ جشن میر کے تحت دو روزہ بین الاقوامی سیمینار کا آغاز ہوا جس کے افتتاحی جلسے کی صدارت کرتے ہوئے وائس چانسلر نے کہا کہ میر تقی میر ایک ایسے شاعر ہیں جن کے کلام میں انسان اپنے جذبات و احساسات کے ساتھ نظر آتا ہے، وہ اور ان کا محبوب دونوں انسانی سطح پر رہتے ہوئے سوچتے اور عمل کرتے ہیں۔
تین سو سالہ جشن میر دو روزہ بین الاقوامی سیمینار میں اے ایم یو کے وائس چانسلر پروفیسر محمد گلریز نے کہا کہ میر کے افکار ان کے زمانے میں بھی اہم تھے اور آج بھی اردو کی شعریات پر ان کا گہرا اثر ہے۔ میر کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ تین سو برس گزر جانے کے بعد آج بھی ان کی شاعری مقبول عام ہے۔ وائس چانسلر نے میر کے اشعار بطور مثال پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ اشعار آج بھی زبان زد خاص و عام ہیں اور لوگ ان کے ذریعہ اپنے جذبات و خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔
انہوں نے شعبہ اردو کے صدر پروفیسر محمد علی جوہر اور دیگر ممبران کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے شعبہ کی علمی، ادبی اور ترقی میں آئندہ ہر طرح سے تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ شعبہ فارسی کے سابق صدر، پروفیسر شریف حسین قاسمی نے کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ میر ایک ایسے شاعر ہیں جن کے یہاں امکانات کی دنیا بہت وسیع ہے اور یہ صرف اس لیے ممکن ہے کہ میر نے ایسی لفظیات اور ایسے اسلوب کا استعمال کیا جن سے امکانات کے کئی گوشے ابھرتے ہیں۔ شمس الرحمن فاروقی کی کتاب شعر شور انگیز کو میر شناسی میں سنگ میل قرار دیتے ہوئے انہوں نے میر کی ریختہ گوئی کے ساتھ ہی ان کی فارسی شاعری پر بھی تفصیلی روشنی ڈالی۔
پروفیسر قاسمی نے کہا کہ میر اپنے اسلوب بیان کی سادگی کی وجہ سے شاعروں کے درمیان امتیازی مقام رکھتے ہیں۔ میر عاشقانہ مضامین کو سادگی کے ساتھ بیان کرنے کے حامی تھے جس کی مثال ان کا پورا کلام ہے۔ مہمان خصوصی، فارسی کی معروف دانشور اور سابق صدر شعبہ فارسی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، پروفیسر آذر می دخت صفوی نے کہا کہ میر تقی میر کے افکار و خیالات ان کے دور تک محدود نہیں ہیں بلکہ ہر زمانے میں ان کے خیالات سے استفادہ کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میر کی شاعری کی گہری تفہیم کے لیے فارسی ضروری ہے اس لیے اہل اردو کو اس جانب خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ میر کی شاعری میں حسن اور حزن زندگی کا لازمہ ہیں اور یہی ان کی شاعری کا محور ہے۔
مزید پڑھیں: بھوپال میں میر تقی میر پر سمینار
پروفیسر صفوی نے کلام میر کے تنوع، سادگی اور معنوی جہات پر روشنی ڈالتے ہوئے ان کی نثر نگاری کے امتیازات بھی بیان کیے۔ انہوں نے ذکرِ میر، فیضِ میر اور نکاتُ الشعراء کے حوالے سے کہا کہ یہ کتابیں ان کی نثر نگاری کا اعلیٰ نمونہ ہیں۔ انہوں نے میر کی فارسی لفظیات کا جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ میر نے اپنی فارسی دانی کی وجہ سے ان لفظیات کو اردو کا لازمی جز بنا دیا۔ فیکلٹی آف آرٹس کے ڈین، پروفیسر عارف نذیر نے کہا کہ میر کی شاعری مقبول عام ہے جس کی وجہ ان کا لسانی رچاؤ ہے۔ انہوں نے میر کے متعدد اشعار اور ان کے ہندی ترجمے بطور مثال پیش کیے اور اس بات پر زور دیا کہ ہندستان کی دیگر زبانوں میں بھی میر کی شاعری کا ترجمہ کیا جانا چاہیے۔
استقبالیہ خطبہ پیش کرتے ہوئے صدر شعبہ اردو، پروفیسر محمد علی جوہر نے پروفیسر شریف حسین قاسمی اور پروفیسر آذر می دخت صفوی کا تفصیلی تعارف پیش کیا اور سمینار کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالی۔ ایم اے سال آخر کی طالبہ زاہدن خاتون نے اپنی مترنم آواز میں میر کی معروف غزل ”دکھائی دیے یوں کہ بے خود کیا“ پیش کی۔