عظمیم مجاہد آزادی پنڈت رام پرساد بسمل کے یوم شہادت 19دسمبر کو گورکھپور جیل میں انہیں خراج عقیدت پیش کیا گیا۔ اس موقع پر گروکرپا ادارے اور اکھل بھارتیہ کرانتی کاری سنگھرش مورچہ کے تعاون سے گورکھپور جیل میں ایک پروگرام کا اہتمام کیا گیا۔ جس میں شہیدِ وطن رام پرساد بسمل کو گلہائے عقیدت پیش کیا گیا اور ان کی یاد میں دیا روشن کیا گیا۔
اس پروگرام میں برجیش رام ترپاٹھی کے ساتھ راجیہ سبھا کے رکن جے پرکاش نشاد، پروفیسر اجے شکلا، جیلر پریم ساگر شکلا سمیت کئی خواتین رہنما بھی شامل ہوئیں۔
اس موقع پر گزشتہ 11سالوں سے ہوئے رہے پندت رام پرساد بسمل بلدانی کے سالانہ میلے اور کھیل فیسٹول کا بھی انعقاد کیا گیا۔ اس انعقاد کے تیسرے دن بسمل کی جائے شہادت ڈویژنل جیل میں 19دسمبر کو خراج عقیدت کا پروگرام ہوا۔ اس سے قبل شہر کے جیتنا تراہے سے موٹر سائیکل اور مشعل جلوس بھی نکالا گیا۔
واضح رہے کہ گورکھپور کی ڈویژنل جیل میں پنڈت بسمل کو 19دسمبر کو علی الصبح 6:30بجے پھانسی دی گئی تھی۔ اس عظیم شہادت کی یاد آج بھی منائی جاتی ہے اور جیل میں شہید بسمل کی تصویر پر دیا روشن کیا جاتا ہے۔ جائے شہادت پر رامیشورم سے منگائی گئی خاص سنکھ بجائی جاتی ہے جس سے جیل کا پورا احاطہ گونج اٹھتا ہے۔
بسمل کی قید کا کمرہ جیل سے پوری طرح آزاد ہو چکا ہے۔ 1927 سے ان کی یہ جائے شہادت جیل انتظامیہ کی دیکھ بھال میں تھا جو سماجی کارکن برجیش رام ترپاٹھی کی پہل پر آج جیل سے پوری طرح الگ ہو چکا ہے۔ اس کو یوگی حکومت نے جیل سے الگ کرتے ہوئے تقریباً 2کروڑ روپے کی رقم سے اسے سیاحتی مقام کے طور پر تیار کرنے کا کام کیا ہے۔
رام پرساد بسمل کی شہادت کے قصے سے پورا ملک واقف ہے۔ جیل میں انہوں نے اپنی خود نوشت سوانح لکھی۔ وہیں ان کے آخری سفر میں لاکھوں لوگ شامل ہوئے۔ ان کی ماں بھی ان سے جیل میں ملنے گئی تھیں۔ ان کے آخری سفر میں شامل ہوکر ان کی ماں نے لوگوں میں آزادی کے لیے جوش بھرا تھا۔
مزید پڑھیں:
اشفاق اللہ خان اور بسمل کی دوستی ہندو مسلم اتحاد کی روشن مثال
آج ان کے آخری رسوم کی جگہ کو ان کے نام سے منسوب کرنے کی مانگ ہو رہی ہے۔ ایسے وقت میں جب جیل میں واقع ان کے یادگار مقام کو سیاحتی مقام کے طور پر تیار کیا جا رہا ہے ایسے میں ممکن ہے کہ ریاستی حکومت ان کے آخری رسوم کی جگہ کو بھی ان کے نام سے منسوب کرنے کا مطالبہ تسلیم کر لے۔