معاشرے میں رہتے ہوئے بھی معاشرے سے دور رہنا اُن کا مقدر ہے۔ وہ کبھی بھی معاشرتی رشتوں میں شمار نہیں کیے جاتے ہیں اور آج بھی اُن کی قبولیت پر سخت بحث جاری ہے۔ خوشی کے دنوں میں دروازے پر تالیاں بجاکر وہ نظرانہ مانگتے ہیں۔ ناچ کرتے ہوئے گانا گاکر دعائیں بھی دیتے ہیں۔ بحران کی اس گھڑی میں، وہی ہاتھ ضرورتمندوں کو سہارا دے رہے ہیں اور خوب مدد کر رہے ہیں۔
لاک ڈاؤن کے بعد سے خواجہ سرا ہر روز اپنے گھر کے دروازے پر کھانا اور رسد تقسیم کر رہے ہیں۔گھر میں کوئی خوشی کا موقع ہو، شادی نکاح ہو، گھر میں کسی بچّے کی پیدائش ہو تو دروازے پر کسی خواجہ سرا کا آنا لازمی ہے۔ کچھ لوگ دروازے پر خواجہ سرا کی آمد کو اچھا سمجھتے ہیں۔ معاشرے سے دور رہ کر ”بدھائی“ گاکر اور ناچ گانا گاکر دروازے سے جو کچھ روپیہ یا کھانا مل جاتا ہے، اُسے میں گزارا کر لیتے ہیں۔
لیکن جب اسی معاشرے کو خواجہ سراؤں کی ضرورت ہوتی ہے، تو وہ اپنے ہاتھ پیچھے نہیں کرتے ہیں۔ اب ملک میں لاک ڈاؤن کا اعلان ہونے کے بعد ظاہر ہے غریب اور مزدور طبقہ کو دو وقت کی روٹی کا انتظام کرنے مشکل ہو رہا ہے۔
لہزا خواجہ سراؤں نے سہارے کے لیئے اپنے ہاتھ بڑھا دیئے ہیں۔ بریلی شہر کے سی بی گنج علاقے میں رہنے والے راجو شمیم، سروج کِنّر، شیتل کِنّر اور سنجنا کِنّر نام کے خواجہ سراؤں نے غریب مزدوروں اور ضرورتمندوں کو کھانا، رسد ارو روپیہ تقسیم کرنے کی مہم شروع کی ہے۔
کبھی وہ اہل لوگوں کے دروازے پر جاکر نظرانہ وصول کرتے تھے، اب ضرورت مند اُن کے دروازے پر پہنچ رہے ہیں۔
سب سے دلچسپ بات یہ ہے معاشرتی فاصلہ کا درست نظام لاک ڈاؤن کے قواعد کا پورا خیال رکھا گیا ہے۔ گھر کے دروازے پر کئی گالے بناکر معاشرتی فاصلے کے حکم پر پوری طرح عمل کیا جارہا ہے۔
ایک طرف، جہاں بازاروں اور سبزی منڈیوں میں تعلیم یافتہ افراد معاشرتی فاصلے کی اہمیت کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں، وہیں خواجہ سراؤں کے نہ صرف اس قواعد پر عمل کیا ہے، بلکہ وہاں آنے والے افراد کو یہ پیغام دیگر افراد تک پہنچانے کے لیئے متاثر بھی کیا ہے۔