لکھنو: ال انڈیا ٹیچرس ایسی سوایشن مدارس عربیہ کے جنرل سیکریٹری وحید اللہ خان سعیدی نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اتر پردیش کے محکمہ اقلیتی فلاح بہبود و وقف کے سکریٹری کی جانب سے یقینی طور پر یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ اب مدرسہ جدید کاری اسکیم 2022 سے ہی بند کر دی گئی ہے اب 21216 اساتذہ کے خاندان کے سامنے اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔28 سالوں سے متواتر ان کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ کیا گیا ہے۔
انہوں حکومت کی منشا پر کہا کہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مرکز کے اس جواب سے کہ اسکیم مارچ 2022 تک ہی تھی تو 2022 میں اس اسکیم کے تحت ہی مدرسوں کی جانچ کیوں کروائی گئی؟اساتذہ کو پہلے ہی اس بات سے آگاہ کیوں نہیں کرایا گیا؟ مرکزی حکومت کے ہائی کورٹ میں لگائے گئے حلف نامے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اسکیم مارچ 2022 تک ہی تھی تو اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے 2022 تک اس اسکیم کو چلایا۔مرکزی اور صوبائی محکمہ کے افسران کی بات کو مان لیا جائے کہ اسکیم 2022 تک ہی تھی تو اس سے پہلے کے چھ سالوں کے اعزازیہ کے بقائے جات کی ادائیگی قانونی اور اخلاقی طور پر انہیں کر دینی چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ 2014 میں ہی جب مرکزی حکومت تبدیل ہوئی اور فرقہ پرست ذہنیت کے لوگ اقتدار پر قابض ہوئے تو خدشہ اسی وقت سے تھا کہ یہ مدارس کے ڈھانچے کو برباد کرنے کی پورش پوری کوشش کریں گے اور انہوں نے روز اول سے ہی اس پر کام کرنا شروع کر دیا تھا۔مدرسہ جدید کاری اساتذہ کے مسائل کے حل اور حقوق کی حصولیابی کے لیے جمہوری ملک میں جمہوریت کے وہ سارے طریقے اپناتے ہوئے ہر سطح پر جدوجہد کی گئی کہ 28 سالوں سے مرکزی حکومت کے ذریعے نافذ جدید کاری اسکیم کے تحت 7442 مدرسوں میں 21216 اساتذہ کی اعزازیہ برقرار رہے اور انہیں ماہ بماہ اعزازیہ کی ادائیگی کی جائے،مگر افسوس کہ ہر سطح کی جدوجہد ناکام ثابت ہوئی۔
انہوں نے مزید کہا کہ اتر پردیش مدرسہ تعلیمی بورڈ سے تحتانیہ، فوقانیہ اور عالیہ سطح کے 16513 مدرسے منظور شدہ ہیں۔ان میں سے 7442 مدرسوں میں 21216 جدید کاری اساتذہ معمولی اعزازیہ پر حساب، سائنس، سوشل سائنس، ہندی، انگریزی وغیرہ کی تعلیم دے رہے تھے اور ان کی اعزازیہ کی ادائیگی چھ سالوں سے شیئر کے مطابق مرکزی اور صوبائی حکومت کے ذریعے نہیں کی جا رہی تھی اس کے باوجود وہ اس امید پر مدرسوں میں درس و تدریس کی خدمت انجام دے رہے تھے کہ جدوجہد کبھی نہ کبھی رنگ لائے گی اور وزیراعظم کا نعرہ سب کا ساتھ، سب کا وکاس اور سب کا وشواس زمینی سطح پر حقیقت میں ضرور ثابت ہوگا، مگر انہیں یہ پتہ نہیں تھا کہ یہ سب دھوکا ہی دھوکا ہے اس حکومت میں سب کے ساتھ انصاف کبھی نہیں ہوگا۔انہیں اس بات سے امید تھی کہ صوبائی حکومت جنوری 2014 سے اضافی اعزازیہ مسلسل دیتی آرہی ہے تو شاید اپنے- اپنے شیئر کے مطابق مرکز اور صوبے کا اعزازیہ بھی مستقبل میں مل جائے گا۔بہرحال کہنے اور لکھنے کے لیے تو بہت کچھ ہے لیکن آپ کے سامنے کچھ باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ مدرسہ جدید کاری اسکیم اور اساتذہ کے حقوق کی لڑائی لڑنا ہم سب کی اخلاقی ذمہ داری ہے۔خاص طور پر امداد یافتہ مدارس کے صدر المدرسین اور اساتذہ جمہوری اور عدالتی کاروائیوں میں ان کا بھرپور طور پر مالی اور انفرادی تعاون کریں اور جدوجہد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔ انہوں نے کہا کہ مدارس کے تئیں مرکزی اور صوبائی حکومت کا رویہ منصفانہ نہیں ہے اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آج ان کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے وہ کل آپ کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔ آپ اس غفلت میں قطعی نہ رہیں کہ "مدرسہ جدید کاری اسکیم"مستقل نہیں تھی، اس حکومت سے کوئی کام ناممکن نہیں ہے۔ابھی آپ نے حال ہی میں دیکھا ہوگا کہ محکمہ کے وزیر صاحب کہہ رہے ہیں کہ فی الحال مدرسوں کی کوئی جانچ نہیں ہوگی مگر جانچ روکنے کا ڈائریکٹر نے اب تک کوئی آرڈر نہیں کیا اور ضلعی افسران نے جانچ کا کام شروع کر دیا۔ان کے کتھنی اور کرنی میں بہت فرق ہے۔
یہ بھی پڑھیں: رکن پارلیمان شفیق الرحمن برق کی بی جے پی پر تنقید
انہوں نے مدرسہ اور مدرسین کے تعلق سے کام کرنے والی سبھی تنظیموں سے گزارش کی ہے کہ اپنے آپسی اختلاف کو بھلا کر اس حساس مسئلے پر آپس میں سر جوڑ کر بیٹھیں اور اگلا لائحہ عمل تیار کریں۔