ETV Bharat / state

History of Nau Mahla Masjid: نو محلہ مسجد تحریک آزادی کی گواہ

مغل بادشاہ اورنگزیب عالم گیر کے دورِ حکومت میں بریلی کے ضلع مجسٹریٹ ناظم اور پولیس سپرنٹنڈنٹ راجا مکرند رائے نے نئی بریلی بسائی تھی۔ اُسی دور میں اسلامیہ کالج کے پاس نو محلہ علاقہ تیار کیا گیا تھا۔ علاقے میں تعمیر کردہ مسجد 'نومحلہ مسجد' کہلاتی ہے۔ History of Nau Mahla Masjid Bareilly

نو محلہ مسجد تحریک آزادی کی گواہ
نو محلہ مسجد تحریک آزادی کی گواہ
author img

By

Published : Apr 4, 2022, 6:35 PM IST

آزاد بھارت میں متعدد مقامات ایسے ہیں جو جنگ آزادی میں ہزاروں بھارتیوں کی شہادت کی گواہی دیتا ہے لیکن بریلی کی نو محلہ مسجد کا واقعہ کئی معنیٰ میں اہمیت کا حامل ہے۔ یہاں سید خاندانوں نے ملک کی آن بان اور شان کے لیے جامِ شہادت نوش کیا تھا اور اُن کے گھروں کی خواتین نے آبرو بچانے کے لیے اپنی جان دے دی تھی۔ مغلیہ سلطنت کے دور میں تعمیر کردہ نو محلہ مسجد تحریک آزادی کی چشم دید گواہ ہے۔ Nau Mahla Masjid in Bareilly

نو محلہ مسجد تحریک آزادی کی گواہ

برطانوی حکومت کی افواج نے جنگ آزادی سنہ 1857ء میں اپنے سپہ سالاروں کے ساتھ یہاں بھی حملہ کیا تھا۔ سید خاندانوں کے کئی افراد کو شہید کر دیا گیا اور خاندان کی خواتین نے مسجد کے صحن میں واقع کنویں میں کودکر اپنی آبرو بچائی، لیکن اُن کی جان چلی گئی۔ نو محلہ مسجد کے احاطے میں صحن کا آدھا حصہ شہیدانِ وطن کی قبرگاہ ہے۔ نو محلہ مسجد میں واقع یہ قبرستان سنہ 1857ء کی تحریک کی یاد دلاتا ہے۔ This historic mosque of Bareilly is a witness to revolution

مؤرخین کے مطابق مغل بادشاہ اورنگزیب عالم گیر کے دورِ حکومت میں بریلی کے ضلع مجسٹریٹ ناظم اور پولیس سپرنٹنڈنٹ راجا مکرند رائے نے نئی بریلی بسائی تھی۔ اُسی دور میں اسلامیہ کالج کے پاس نو محلہ علاقہ تیار کیا گیا تھا۔ علاقے میں تعمیر کردہ مسجد 'نومحلہ مسجد' کہلاتی ہے۔ برطانیہ حکومت کے باغی اور تحریک آزادی کے دیوانے صوبےدار نجب خاں، محمد زماں خاں وغیرہ نماز جمعہ ادا کرنے کے لیے نومحلہ مسجد آتے تھے۔

چھ مئی سنہ 1858 کو برطانیہ حکومت کی فوج نے مسجد پر حملہ کر دیا۔ اس حملے میں کئی بھارتی شہید ہو گئے۔ خاص بات یہ ہے کہ اس مسجد کے اطراف میں سید خاندان کثیر تعداد میں رہتے تھے سب سے زیادہ شہداء میں سید افراد ہی تھے۔ برطانیہ افواج نے اُن کے گھروں میں پردہ نشین خواتین کو بھی نشانہ بنانے کی کوشش کی۔ پردہ نشین خواتین نے اپنی آبرو بچانے کے لیے کنویں میں کودکر اپنی آبرو تو بچا لی، لیکن جان نہیں بچا سکیں۔ مسجد کے منتظمین کو یہ افسوس ہے کہ تاریخی مسجد ہونے کے باوجود اس مسجد کو شہداء کے عظیم مقام یا سیاحت کے طور پر درجہ نہیں ملا ہے۔

برطانیہ افواج کے حملے میں مسجد کو بھی کافی نقصان ہوا تھا، یہ علاقہ تقریباً 49 برس تک تباہ و برباد رہا تھا۔ مسجد کے باہر لگے نوشتہ کے مطابق، نائب تحصیلدار مرزا نظیر بیگ نے سنہ 1906ء میں مسجد کو تعمیر نو تیار کرایا۔ گلاب رائے علاقے کے بڑے زمیندار خان بہادر رحمداد خان نے سنہ 1920ء میں مسجد میں فرش ڈلوایا اور باؤنڈری تعمیر کرائی۔ بہرحال نومحلہ مسجد برطانیہ حکومت کے خلاف جنگ میں قربان اور شہید ہوئے انقلابیوں کے بمقام یادگار کی طرح ہے۔ نو محلہ مسجد میں بھارتیوں کے خون سے لکھی گئی عبارت آج بھی تاریخ کے صفحات میں سنہرے الفاظ میں درج ہے۔ نومحلہ مسجد کی عمارت تاریخ میں کسی لازوال دستخط کی مانند درج ہے۔

آزاد بھارت میں متعدد مقامات ایسے ہیں جو جنگ آزادی میں ہزاروں بھارتیوں کی شہادت کی گواہی دیتا ہے لیکن بریلی کی نو محلہ مسجد کا واقعہ کئی معنیٰ میں اہمیت کا حامل ہے۔ یہاں سید خاندانوں نے ملک کی آن بان اور شان کے لیے جامِ شہادت نوش کیا تھا اور اُن کے گھروں کی خواتین نے آبرو بچانے کے لیے اپنی جان دے دی تھی۔ مغلیہ سلطنت کے دور میں تعمیر کردہ نو محلہ مسجد تحریک آزادی کی چشم دید گواہ ہے۔ Nau Mahla Masjid in Bareilly

نو محلہ مسجد تحریک آزادی کی گواہ

برطانوی حکومت کی افواج نے جنگ آزادی سنہ 1857ء میں اپنے سپہ سالاروں کے ساتھ یہاں بھی حملہ کیا تھا۔ سید خاندانوں کے کئی افراد کو شہید کر دیا گیا اور خاندان کی خواتین نے مسجد کے صحن میں واقع کنویں میں کودکر اپنی آبرو بچائی، لیکن اُن کی جان چلی گئی۔ نو محلہ مسجد کے احاطے میں صحن کا آدھا حصہ شہیدانِ وطن کی قبرگاہ ہے۔ نو محلہ مسجد میں واقع یہ قبرستان سنہ 1857ء کی تحریک کی یاد دلاتا ہے۔ This historic mosque of Bareilly is a witness to revolution

مؤرخین کے مطابق مغل بادشاہ اورنگزیب عالم گیر کے دورِ حکومت میں بریلی کے ضلع مجسٹریٹ ناظم اور پولیس سپرنٹنڈنٹ راجا مکرند رائے نے نئی بریلی بسائی تھی۔ اُسی دور میں اسلامیہ کالج کے پاس نو محلہ علاقہ تیار کیا گیا تھا۔ علاقے میں تعمیر کردہ مسجد 'نومحلہ مسجد' کہلاتی ہے۔ برطانیہ حکومت کے باغی اور تحریک آزادی کے دیوانے صوبےدار نجب خاں، محمد زماں خاں وغیرہ نماز جمعہ ادا کرنے کے لیے نومحلہ مسجد آتے تھے۔

چھ مئی سنہ 1858 کو برطانیہ حکومت کی فوج نے مسجد پر حملہ کر دیا۔ اس حملے میں کئی بھارتی شہید ہو گئے۔ خاص بات یہ ہے کہ اس مسجد کے اطراف میں سید خاندان کثیر تعداد میں رہتے تھے سب سے زیادہ شہداء میں سید افراد ہی تھے۔ برطانیہ افواج نے اُن کے گھروں میں پردہ نشین خواتین کو بھی نشانہ بنانے کی کوشش کی۔ پردہ نشین خواتین نے اپنی آبرو بچانے کے لیے کنویں میں کودکر اپنی آبرو تو بچا لی، لیکن جان نہیں بچا سکیں۔ مسجد کے منتظمین کو یہ افسوس ہے کہ تاریخی مسجد ہونے کے باوجود اس مسجد کو شہداء کے عظیم مقام یا سیاحت کے طور پر درجہ نہیں ملا ہے۔

برطانیہ افواج کے حملے میں مسجد کو بھی کافی نقصان ہوا تھا، یہ علاقہ تقریباً 49 برس تک تباہ و برباد رہا تھا۔ مسجد کے باہر لگے نوشتہ کے مطابق، نائب تحصیلدار مرزا نظیر بیگ نے سنہ 1906ء میں مسجد کو تعمیر نو تیار کرایا۔ گلاب رائے علاقے کے بڑے زمیندار خان بہادر رحمداد خان نے سنہ 1920ء میں مسجد میں فرش ڈلوایا اور باؤنڈری تعمیر کرائی۔ بہرحال نومحلہ مسجد برطانیہ حکومت کے خلاف جنگ میں قربان اور شہید ہوئے انقلابیوں کے بمقام یادگار کی طرح ہے۔ نو محلہ مسجد میں بھارتیوں کے خون سے لکھی گئی عبارت آج بھی تاریخ کے صفحات میں سنہرے الفاظ میں درج ہے۔ نومحلہ مسجد کی عمارت تاریخ میں کسی لازوال دستخط کی مانند درج ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.