اُتر پردیش کی دارلحکومت لکھنؤ میں واقع خواجہ معین الدین چشتی لسانیات یونیورسٹی میں 5 واں جلسہ تقسیم اسناد منعقد کیا گیا۔ اس موقع پر چانسلر آنندی بین پٹیل موجود رہیں۔ تقسیم اسناد تقریب میں 282 ڈگریاں اور 85 میڈل تقسیم کئے گئے۔ خواجہ معین الدین چشتی تمغہ و چانسلر تمغہ مریم حفیظ نے اپنے نام کیا۔ وہیں وائس چانسلر تمغہ راشد خورشید احمد کو دیا گیا۔
گورنر آنندی بین پٹیل نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بتایا 'بھارت و دنیا میں تقریبا ڈھائی ہزار زبانیں ختم ہونے کے دہانے پر ہیں۔ دنیا میں بولی جانے والی زبانوں میں سے 25 فیصد زبانیں ایسی ہیں، جنہیں بولنے اور سمجھنے والوں کی تعداد ایک ہزار سے بھی کم ہے'۔
انہوں نے کہا 'ہمارے ملک میں تقریبا 1952 زبانیں بولی جاتی ہیں، لیکن مقامی زبانوں کی حالت خراب ہے۔ ایسے حالات میں لسانیات کے شعبہ میں ریسرچ کو فروغ دینے کی سخت ضرورت ہے'۔
یو پی کے نائب وزیراعلیٰ ڈاکٹر دنیش شرما نے کہا 'تعلیم کے میدان میں اترپردیش کے طلبا و اساتذہ کے ذریعہ سب سے زیادہ ای کنٹینٹ تیاری کئے گئے ہیں۔ یوٹیوب سمیت دیگر انٹرنیٹ میڈیا ذرائع پر تقریبا 79 کنٹینٹ اپلوڈ بھی کئے گئے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک آسٹریلیائی وفد آیا ہے، اس سے میری ملاقات ہوئی۔ انہوں نے ہمارے ای کنٹینٹ کی تعریف کی۔ وہ ہمارے ای کنٹینٹ سے اپنے طلبا کو پڑھائیں گے'۔
یہ بھی پڑھیے
خودکشی کے بڑھتے واقعات پر قدغن کیسے لگے؟
وہیں جونپور کی رہنے والی مریم حفیظ نے کہا 'میں خواجہ معین الدین سے بی اے آنرس (عربی) کیا ہے۔ مجھے خواجہ معین الدین چشتی، چانسلر، گریجویٹ تمغے ملے ہیں۔ میں چھ سے سات گھنٹے پڑھائی کرتی ہوں۔ میری کامیابی میں اساتذہ کا بڑا ہاتھ ہے۔ میری خواہش ہے کہ میں ایک اچھی ٹیچر بنوں'۔
راشد خورشید احمد نے کہا 'میں سنت کبیر نگر کا رہنے والا ہوں۔ میں نے ایم اے مکمل کیا ہے۔ یہاں سے بی اے آنرس (عربی ) کیا ہے۔ مجھے وائس چانسلر کا تمغہ ملا ہے۔ میں اپنے والد کی طرح ٹیچر بننا چاہتا ہوں اور غریب بچوں کو تعلیم دینا چاہتا ہوں'۔