ریاست اترپردیش کے شہر رامپور میں واقع مسجد گھڑسواروں والی رامپور کی قدیم مساجد میں سے ایک ہے۔ یہ مسجد کئی طرح کے نشیب و فراز سے ہوکر گزری ہے۔ اس کا نام مسجد گھڑسواروں والی کیوں پڑا اور اس کی تاریخی حقیقت کیا ہے۔ آپ بھی جانیں اس خصوصی رپورٹ میں۔
مسجد گھڑسواروں والی کی تاریخ تقریباً 250 برس پر مشتمل ہے۔ اس مسجد کے نزدیک قیام کرنے والی، ریاست رامپور کی گھڑسواروں والی فوج، یہیں نماز ادا کرتی تھی۔ اسی لئے اس مسجد کا نام مسجد گھڑسواروں والی پڑا۔ لیکن نوابی دور جب ختم ہوا تو اس ریاست کی فوج کے اختیارات بھی ختم ہو گئے اس طرح نواب کے تعمیر کردہ مقامات کی حیثیت بھی ختم ہوتی چلی گئی۔ مسجد گھڑسواروں والی کی دیکھ بھال صحیح طور پر نہیں کئے جانے کی وجہ سے اس کی حالت خستہ ہوگئی اور پھر ایک وقت ایسا بھی آیا جب زمین مافیاؤں نے اپنا جال بچھانا شروع کیا تو ان مساجد کو بھی نہیں چھوڑا۔ اپنے آباء و اجداد کی وراثت بتاکر ان مافیاؤں نے جہاں مسجد کے آس پاس کی جگہوں پر قبضہ کیا وہیں اس خستہ حالت مسجد کی اراضی کو بھی اپنے قبضے میں لے لیا اور ایک دو نشانیاں چھوڑ کر پوری مسجد کی عمارت کو شہید کر دیا۔
سماج وادی دور حکومت میں جب پارٹی کے قدآور رہنما محمد اعظم خان نے مختلف اعلیٰ وزارتوں کے قلمدان سنبھالے تو انہوں نے ان قبضہ کی ہوئی اراضیوں کا بھی اندراج سنی سینٹرل وقف بورڈ میں کرایا۔ اس طرح مسجد گھڑسواروں والی کی تعمیر نو کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو سکا اور سنہ 2014 سے یہ مسجد دوبارہ نمازیوں سے آباد ہونے لگی۔ اب اس مسجد کے متولی سید مبین میاں ہیں جنہوں نے اس مسجد کے ساتھ ساتھ دیگر دو مساجد کی بھی دیکھ بھال کی خاطر اپنی رہائش گاہ اسی علاقے میں بنالی ہے۔ ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے انہوں نے مسجد کی تاریخی حیثیت اور اس کی تعمیر نو تک کے سفر سے واقف کرایا۔
بہرحال یہ مسجد رامپور کی وراثت کا ایک اہم حصہ ہے اور مشعرِ اسلام بھی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مقامی لوگ زیادہ سے زیادہ اس سے اپنا رشتہ مضبوط کریں۔ تاکہ اس کو کسی بھی بدنگاہی کا شکار ہونے سے بچایا جا سکے۔