عالمی شہرت یافتہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) ملک کا واحد تعلیمی ادارہ ہے جہاں پر سب سے زیادہ تاریخی عمارات موجود ہیں۔ تاریخی عمارات میں قدیمی عمارت 1802 کا 'پیروی ہاؤس' ہے جہاں پر موجودہ وقت میں اے ایم یو طلبہ کا رہائشی 'سر شاہ سلیمان ہال' موجود ہے۔
سنہ 1875 میں مدرسہ العلوم کے بعد 8 جنوری 1877 کو محمڈن اینگلو اورینٹل (ایم اے او) کالج کا قیام عمل میں آیا جس کے تین اہمیت کے حامل تاریخی گیٹ تھے جو آج بھی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کیمپس میں موجود ہیں جن میں وکٹوریہ گیٹ، فیض گیٹ اور سید ظہور حسین گیٹ ہے۔
محمڈن اینگلو اورینٹل (ایم اے او) کالج کی جنوبی سرحد کی دیوار کے مغربی جانب تعمیر گیٹ کے لیے 1874 میں مرادآباد کے رئیس سید ظہور حسین نے سر سید احمد خان کو سات سو روپے کا عطیہ ایم اے او کالج کی بونڈری وال پر ان کے نام سے گیٹ کی تعمیر کے لیے دیئے تھے۔ جس کو 'سید ظہور حسین گیٹ' کے نام سے جانا گیا جس پر آج بھی گیٹ کی تاریخ کا پتھر نصب ہے۔
موجودہ سید ظہور حسین گیٹ کی بدحالی دیکھ کر لگتا ہے موجودہ اے ایم یو یونیورسٹی انتظامیہ اس گیٹ کی اہمیت اور تاریخ بھول گئی ہے۔ موجودہ یونیورسٹی انتظامیہ نے گیٹ کو بند کیا ہوا ہے، ضرورت سے زیادہ بڑھتی پیڑ پودوں کی شاخاؤں نے پوری طرح سے گیٹ کو ڈھک دیا ہے، مکڑی کے جالے، گندگی، گیٹ پر تاریخ کے پتھر پر رنگ نہ ہونے سے گیٹ کی تاریخ پڑھنے میں بھی نہیں آتی۔ جس کی وجہ سے یوں لگتا ہے کہ موجودہ یونیورسٹی انتظامیہ گیٹ کی تاریخ اور اہمیت بھول گئی ہے اور تاریخی سید ظہور حسین گیٹ انتظامیہ کی توجہ کا طلبگار ہے۔
سرسید اکیڈمی کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد شاہد نے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ 'محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کے تین مختلف گیٹوں میں سے ایک 'سید ظہور حسین گیٹ' ہے جس کی تعمیر کے لیے مرادآباد کے رائیس سید ظہور حسین نے 1874 میں بانی درسگاہ سر سید احمد خاں کو سات سو روپے کا عطیہ دیا تھا جس کے بعد 1876 میں اس کی تعمیر محمڈن اینگلو اورینٹل (ایم اے او) کالج کی جنوبی سرحد کی دیوار کے مغربی جانب تعمیر ہوئی جو آج بھی یونیورسٹی پراکٹر دفتر کے قریب موجود ہے۔
یہ بھی پڑھیں: علی گڑھ: اے ایم یو میں گردے کے دو سنگین مریضوں کا کامیاب علاج
علیگڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) میں موجود تاریخی عمارات اگر اسی طرح بدحالی کا شکار ہوتی رہی تو آنے والی نسلیں اے ایم یو کی تاریخ اور اہمیت سے محروم ہو جائیں گی۔
موجودہ انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ سبھی تاریخی عمارات کے رنگ روغن، صفائی، دیکھ بھال اور تاریخ کا خاص دھیان رکھے تاکہ نئی نسلیں ان کی تاریخ اور اہمیت سے واقف ہوکر اس کو محفوظ رکھ سکے۔