بریلی میں سُنّی، بریلوی، صوفی، خانقاہی، مرکزِ اہلسنت، خانقاہ رضویہ، دربار اعلیٰ حضرت میں درگاہ مجدد دین وملت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری برکاتی رحمۃ اللہ علیہ کا یوم ولادت بنام جشن یوم رضا منایا گیا۔ درگاہ اعلیٰ حضرت کے سربراہ اور بزرگ شخصیت حضرت علامہ الحاج الشاہ محمد سبحان رضا خاں سبحانی میاں کی سرپرستی اور درگاہ اعلیٰ حضرت سجادہ نشین حضرت مفتی احسن رضا خاں قادری کی صدارت میں صبح نو بجے کورونا گائڈ لائن کی پابندی کرتے ہوئے مخصوص و محدود افراد کی موجودگی خانقاہی روایات کے مطابق جشن میں یومِ رضا منایا گیا۔
جامعہ رضویہ منظر اسلام کے مفکر و دانشور عالم دین مفتی محمد سلیم بریلوی نے اپنے منفرد اور فکر انگیز خطاب میں کہا کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں انگریزی کلینڈر کے مطابق 14 جون 1856ء کو پیدا ہوئے تھے۔ یہ وقت ہندوستان کا مشکل اور سخت ترین دور تھا۔
1857ء کو ہندوستانی اقتدار اور دہلی کے تخت و تاج کو برطانوی حکومت سے آزاد کرانے کے لئے مسلح و منظم اور عسکری انداز میں سب سے آخری جنگ ہوئی۔ جو ہندوستانی ہار گئے اور پورے ملک پر برطانوی حکومت قابض ہو گئی۔ ہندوستان اور ہندوستانی، برطانوی اقتدار کے غلام بن گئے۔
انگریزی حکومت کی مخالفت کرنے والے ہندوستانی قائدین کو برطانوی حکومت نے چُن چُنکر قتل کر دیا تھا۔ ہزاروں علماء و مشائخ کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا۔ علمی ادارے اور محفلیں ویران کردی گئیں۔ دینی و دنیاوی تعلیم گاہیں اجاڑ ڈالی گئیں۔ برطانوی حکومت کے خلاف اُٹھنے والی ہر آواز کو ہمیشہ کے لئے خاموش کردیا گیا۔
جس زمانے میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں کی پیدائش ہوئی، یہ دور، تہشت، خوف اور مایوسی کا دور تھا۔ ہندوستانی اپنی خود اعتمادی کھو چکے تھے، جبکہ کسی ظالم حکومت کے تخت کو پلٹنے اور اس سے آزادی کی جنگ لڑنے کو خود اعتمادی، فکری پختگی، فراست و دانائی اور ذہنی و قلبی طاقت کا مثبت ہونا لازمی ہے۔
اس لئے سال 1857ء کے ہولناک اور ہلاکت و خون ریز طوفان کے گزرنے کے بعد انگریزی حکومت کو اکھاڑ پھینکنے کے لیے ضروری تھا کہ ہندوستانیوں کو ایسی قیادت ملے، جو ہندوستانیوں کی خود اعتمادی کو بحال کرسکے۔ ان کے اندر حق گوئی کا جذبہ پیدا کرسکے۔ ان کے ذہن و دماغ سے انگریزی حکومت کا خوف و دہشت نکال سکے۔ آزادی کی تحریک چلانے کے لئے مناسب و ضروری فکری نشوونما کرسکے۔
برطانوی حکومت کے ظلم و جبر کے مابین ہندوستانیوں کے ایک بڑے طبقہ کو اعلیٰ حضرت امام احمد رضا کی صورت میں ایک ایسا مجدد، قائد اور رہنما مل گیا کہ جنہوں نے عشق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی طاقت، اپنی فراست مومنانہ، اعلیٰ فکر، بے نظیر دانائی اور اپنے حیرت انگیز علوم و فنون سے ہندوستان کے ایک بڑے طبقہ کے اندر خود اعتمادی، حق گوئی، جرات مندی، بے باکی اور دانشمندی پیدا کرنے کے ساتھ دینی و دنیاوی ہر میدان میں کامل ترین رہنمائی کی۔
اعلیٰ حضرت برطانوی حکومت کے سخت مخالف تھے۔ اُنہوں نے کبھی بھی برطانوی حکومت کی حکومت و بالادستی کو قبول نہ کیا۔ انگریزی ججوں کو جج اور برطانوی حکام کو حاکم نہیں مانتے تھے۔ انگریزی نظام تعلیم کے سخت مخالف تھے۔ برطانوی تعلیمی نظام سے بچنے کی اپیل کرتے تھے۔ امام احمد رضا خان یورپ و امریکہ کی مصنوعات کا سختی سے بائیکاٹ کرتے تھے۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں نے سن 1912ء میں اپنی کتاب اور فتویٰ بنام" تدبیر فلاح و نجات" لکھ کر اس کے ذریعہ برطانوی تجارت، برطانوی کورٹ کچہری، برطانوی اسٹامپ، برطانوی مصنوعات اور برطانوی نظامِ تعلیم کی سخت مخالفت کی اور ہندوستانیوں کو ان سب سے بچنے اور اپنی بینکیں، اپنی تعلیم گاہیں قائم کرنے، اپنی تجارت قائم کرنے، اپنی چیزیں خود بنانے اور اپنے معاملات مقدمات برطانوی کورٹ کچہریوں کی بجائے خود سے نمٹانے کی سختی سے تاکید کی تھی۔
خاص بات یہ ہے کہ اعلیٰ حضرت نے اپنے دورِ حیات میں تمام موضوعات پر کتابیں لکھیں۔ برطانوی حکومت کے حوالے سے لکھی ہوئی کسی کتاب میں اُنہوں نے کبھی لفظ "عدالت" نہیں لکھا، بلکہ کورٹ کچہری لکھتے تھے۔ اس کی دلیل یہ تھی عدالت وہ جگہ ہے، جہاں انصاف ہوتا ہے۔ ملک میں "ستیہ گرہ" اور "نان کوآپریشن" یعنی عدم تعاون کی تحریک تین برس بعد تقریباً سن 1915ء کے بعد میں متعارف ہوئی۔
اس طرح اُنہوں نے اپنی دینی و سماجی خدمات کے ذریعے اُنّیس ویں صدی کی آخری اور بیسویں صدی کے ابتدائی دو دہائیوں میں مایوسی و خوف وہراس میں ڈوبے ہندوستانی سماج کے ایک بڑے طبقے کو اس مایوسی سے نکالا۔ خود اعتمادی پیدا کی۔ ایک طاقتور، بےخوف باطل کے آگے سرنگوں نہ ہونے والے سماج کی تشکیل کی۔ آگے چل اسی سماج نے آزادی ہند میں کلیدی کردار ادا کیا۔پروگرام کے اختتام پر مفتی ایوب خاں نوری نے شجرہ پڑھا۔ قاری رضوان مولانا، اختر، مفتی جمیل صاحب وغیرہ نے قل پڑھا اور مفتی احسن میاں صاحب نے ملک و قوم ملت کے لئے دعا کی۔ وبائی امراض سے محفوظ ہونے کی خصوصی دعا کی۔
مدرسہ جامعہ رضویہ منظر اسلام کے مدرس ڈاکٹر اعجاز انجم نے اعلیٰ حضرت کی دینی خدمات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ وہ ایک عاشق رسول تھے۔ ان کا ہر کام عشق رسول کی روشنی میں ڈوبا ہوا ہوتا تھا۔