جواہر لال نہرو میڈیکل کالج علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے ای این ٹی شعبہ میں سانس لینے میں دشواری، ناک سے خون بہنے کی بیماری سے دوچار 13 سالہ لڑکے کا کامیاب علاج Successful Treatment of 13 Year Old Boy at AMU Medical College کیا گیا
ویسکولر انٹرویشنل ریڈیو لوجی خدمات کی آغاز کے ساتھ جواہر لعل نہرو میڈیکل کالج ان خصوصی صحت مراکز کی فہرست میں شامل ہوگیا ہے جو زیادہ تر بڑے شہروں میں واقع ہیں جہاں انجیو-امبولائزیشن Angio-Embolization کے مشکل پروسیجر انجام دیے جاتے ہیں۔
اس ضمن میں ڈاکٹر سیف اللہ خالد نے پی جی آئی چنڈی گڑھ سے ڈی ایم- نیورو انٹرویشنل ریڈیو لوجی DM Neuro-interventional Radiology from PGI Chandigarh سے مکمل کرنے کے بعد اے ایم یو کے جواہر لعل نہرو میڈیکل کالج کے ریڈیو ڈائیگنوسس شعبہ میں کام کرنا شروع کیا ہے۔ انہوں نے انجیو-امبولائزیشن کے طریقہ کار اور برین اسٹروک، فالج اور برین ٹیومر سے متعلق علاج کے طریقہ کار میں خصوصی ترتیب حاصل کی ہے جس میں امبولائزیشن کے بغیر فوری سرجری مکمل نہیں ہوتی۔
بتایا جاتا ہے کہ لڑکا ناک سے جوڑنے والی عضو کے پچھلے حصہ میں ایک مختلف قسم کے ٹیومر سے پریشان تھا اور پرائیویٹ اسپتال کے ڈاکٹر اس کا علاج کرنے میں ناکام ہوگئے تھے۔
کافی جگہ علاج کرانے کے بعد لڑکے کے سرپرست اسے جواہر لعل نہرو میڈیکل کالج Jawaharlal Nehru Medical College AMU لے کر آئے جہاں مرض کی تشخیص کے بعد علاج کا ایک منصوبہ تیار کیا گیا۔ سب سے پہلے ریڈیو ڈائیگنوسس شعبہ کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر سیف اللہ خالد نے پری آپریٹیو- امبو لائزیشن کامیابی کے ساتھ کیا۔ اس کے بعد مخصوص سرجری (منیمل انویزیو ویسکولر انٹر وینشن) کی گئی۔
مزید پڑھیں:
اس کامیاب علاج پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے کہا "یہ جے این ایم سی کی تاریخ میں ایک قابل ذکر دن ہیں کیونکہ ڈاکٹر سیف اللہ خالد نے ریڈیو ڈائیگنوسس شعبہ میں انٹرویشنل ریڈیو لوجی سرویسز کی ابتدا کی ہے اور ناسوفرینجیل انجیو فائبروما (Nasopharyngeal Angiofibroma) کی بیماری میں مبتلا لڑکے پر کامیاب انجیو امبولائزیشن کیا ہے۔ امید ہے کہ اس بیماری میں مبتلا بہت سے غریب کنبوں کا کامیابی سے علاج ہوسکے گا جو پرائیویٹ اسپتالوں کی مہنگی فیس نہیں ادا کر سکتے ہیں"
ڈاکٹر سیف اللہ نے ڈاکٹر مہتاب احمد اور ڈاکٹر آفتاب احمد کی مدد سے پیڈیاٹرک کیتھ لیب میں اس علاج کو انجام دیا، جبکہ شعبہ امراض اطفال سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر شادعبکری اور ان کی ٹیم نے بھی اس کیس میں معاونت فراہم کی۔