ETV Bharat / state

لکھنؤ: یہ تاریخی عمارت کیوں صرف چار منزلہ ہی تعمیر ہوسکی؟ - بھارت میں نوابوں اور بادشاہوں کے دور

بھارت میں نوابوں اور بادشاہوں کے دور میں تعمیر کردہ کئی ایسی خوبصورت اور تاریخی عمارتیں آج بھی موجود ہیں جن کے پیچھے کچھ دلچسپ داستان ضرور سنی سنائی جاتی ہے۔

image
image
author img

By

Published : Dec 15, 2020, 5:43 PM IST

اتر پردیش کے دارالحکومت لکھنؤ کے حسین آباد علاقے کے بیچ و بیچ واقع ستکھنڈا کی تاریخی عمارت اپنی بد قسمتی پر آج بھی آنسو بہا رہی ہے، اس عمارت کی تعمیر کا آغاز اودھ کے تیسرے نواب محمد علی شاہ نے کروایا تھا لیکن عمارت کی تکمیل سے قبل ہی ان کا انتقال ہوگیا۔

بھارت میں نوابوں اور بادشاہوں کے دور میں تعمیر کردہ کئی ایسی خوبصورت اور تاریخی عمارتیں آج بھی موجود ہیں جن کے پیچھے کچھ دلچسپ داستان ضرور سنی سنائی جاتی ہے۔

اسی میں سے ایک نوابوں کے شہر لکھنؤ کی تاریخی عمارت ستکھنڈا بھی شامل ہے جو دیکھنے میں تو بے حد خوبصورت ہے لیکن آج بھی اپنی ادھوری تعمیر پر آنسو بہارہی ہے۔

لکھنؤ کی تاریخی عمارت ستکھنڈا

اس عمارت کو لوگ ستکھنڈا کے نام سے جانتے ہیں، اودھ کے تیسرے نواب محمد علی شاہ کے دور حکومت میں لکھنؤ میں کئی نایاب تعمیرات کی گئی تھیں جس میں بڑا امام باڑہ، چھوٹا امام باڑہ اور لکھنؤ کے حسین آباد علاقے میں خوبصورت عمارتیں شامل ہیں۔

ان سب خوبصورت عمارتوں کا دیدار کرنے کے لیے نواب محمد علی شاہ نے اٹلی کے لیننگ ٹاور آف پیسا کی طرز پر ستکھنڈا کی تعمیر شروع کی لیکن ان کی حیات میں اس عمارت کی تکمیل ممکن نہ ہوسکی۔

جب سے اس عمارت کی تعمیر کا آغاز کیا گیا تب سے نواب محمد علی شاہ مسلسل بیمار رہنے لگے لیکن ان کی یہ خواہش تھی کہ اپنی زندگی میں ہی وہ اس عمارت کو جلد از جلد مکمل طور پر تعمیر کروالیں تاکہ یہاں سے وہ عید اور محرم کے چاند کا دیدار کرسکیں اور باقی عمارتوں کا دیدار بھی اسی ایک عمارت سے کرسکیں۔

حالانکہ نواب محمد علی شاہ کی یہ خواہش ان کے دل میں ہی رہ گئی اور وہ اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ جس کے بعد نوابوں کے شہر کی یہ ستکھنڈا عمارت جو سات منزلہ تعمیر ہونی تھی وہ صرف چار منزلوں تک ہی سمٹ کر رہ گئی، یہی وجہ سے آج بھی مورخین اس عمارت کو بدقسمت عمارت کے نام سے جانتے ہیں۔

لکھنؤ کے معروف مورخ روشن تقی کے مطابق سنہ 1837 تا سنہ 1842 کے درمیان تعمیر ہوئی۔ یہ ادھوری عمارت آج بھی اپنی بدقسمتی پر آنسو بہاتی نظر آتی ہے۔

حالانکہ اس عمارت کی دیکھ بھال کی ذمہ داری حسین آباد ٹرسٹ کی ہے لیکن آج بھی متعدد کاوشوں کے بعد بھی اس عمارت کو مکمل نہیں کیا جاسکا۔ ویسے تو

اس عمارت کا نام ستکھنڈا ہے جس کا مطلب ساتھ کھنڈوں (منزل) والی عمارت ہوتا ہے لیکن یہ عمارت صرف چار کھنڈوں (منزل) تک ہی تعمیر کی جاسکی۔

پرانے لکھنؤ کا باڑا امام باڑہ، چھوٹا امام باڑا اور گھنٹہ گھر کے نزدیک واقع یہ ادھوری عمارت یونان اور اسلامی فن تعمیر کا بے جوڑ نمونہ ہے۔

اس عمارت کے در و دیوار اسلامی فن تعمیر کے طرز پر بنائے گئے ہیں جبکہ عمارت کے باہری حصے کو یونانی طرز پر تعمیر کیا گیا ہے۔

آج بھی لوگ اس ہوادار عمارت کو دیکھ کر یہ نہیں سمجھ پاتے ہیں کہ اس عمارت کو تعمیر کروانے کا مقصد کیا تھا۔

ویسے تو بھیڑ بھاڑ والے لکھنؤ کے حسین آباد علاقے کے عین درمیان میں یہ عمارت واقع ہے لیکن اب یہ عمارت بالکل ویران نظر آتی ہے۔

اس کے در و دیوار آج بھی اپنی بدحالی پر آںسو بہا رہے ہیں، بہتر طور پر اس کی دیکھ بھال نہ ہونے کے سبب اس عمارت کے حصوں سے پلاسٹر بھی جھڑ چکا ہے۔

حالانکہ اس عمارت میں ہر برس ہلال کمیٹی کی جانب سے عید اور محرم کا چاند دیکھنے کا انتظام کیا جاتا ہے۔ لیکن اس کی تشنہ تکمیل کی باتیں بھی خوب کی جاتی ہیں۔

اتر پردیش کے دارالحکومت لکھنؤ کے حسین آباد علاقے کے بیچ و بیچ واقع ستکھنڈا کی تاریخی عمارت اپنی بد قسمتی پر آج بھی آنسو بہا رہی ہے، اس عمارت کی تعمیر کا آغاز اودھ کے تیسرے نواب محمد علی شاہ نے کروایا تھا لیکن عمارت کی تکمیل سے قبل ہی ان کا انتقال ہوگیا۔

بھارت میں نوابوں اور بادشاہوں کے دور میں تعمیر کردہ کئی ایسی خوبصورت اور تاریخی عمارتیں آج بھی موجود ہیں جن کے پیچھے کچھ دلچسپ داستان ضرور سنی سنائی جاتی ہے۔

اسی میں سے ایک نوابوں کے شہر لکھنؤ کی تاریخی عمارت ستکھنڈا بھی شامل ہے جو دیکھنے میں تو بے حد خوبصورت ہے لیکن آج بھی اپنی ادھوری تعمیر پر آنسو بہارہی ہے۔

لکھنؤ کی تاریخی عمارت ستکھنڈا

اس عمارت کو لوگ ستکھنڈا کے نام سے جانتے ہیں، اودھ کے تیسرے نواب محمد علی شاہ کے دور حکومت میں لکھنؤ میں کئی نایاب تعمیرات کی گئی تھیں جس میں بڑا امام باڑہ، چھوٹا امام باڑہ اور لکھنؤ کے حسین آباد علاقے میں خوبصورت عمارتیں شامل ہیں۔

ان سب خوبصورت عمارتوں کا دیدار کرنے کے لیے نواب محمد علی شاہ نے اٹلی کے لیننگ ٹاور آف پیسا کی طرز پر ستکھنڈا کی تعمیر شروع کی لیکن ان کی حیات میں اس عمارت کی تکمیل ممکن نہ ہوسکی۔

جب سے اس عمارت کی تعمیر کا آغاز کیا گیا تب سے نواب محمد علی شاہ مسلسل بیمار رہنے لگے لیکن ان کی یہ خواہش تھی کہ اپنی زندگی میں ہی وہ اس عمارت کو جلد از جلد مکمل طور پر تعمیر کروالیں تاکہ یہاں سے وہ عید اور محرم کے چاند کا دیدار کرسکیں اور باقی عمارتوں کا دیدار بھی اسی ایک عمارت سے کرسکیں۔

حالانکہ نواب محمد علی شاہ کی یہ خواہش ان کے دل میں ہی رہ گئی اور وہ اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ جس کے بعد نوابوں کے شہر کی یہ ستکھنڈا عمارت جو سات منزلہ تعمیر ہونی تھی وہ صرف چار منزلوں تک ہی سمٹ کر رہ گئی، یہی وجہ سے آج بھی مورخین اس عمارت کو بدقسمت عمارت کے نام سے جانتے ہیں۔

لکھنؤ کے معروف مورخ روشن تقی کے مطابق سنہ 1837 تا سنہ 1842 کے درمیان تعمیر ہوئی۔ یہ ادھوری عمارت آج بھی اپنی بدقسمتی پر آنسو بہاتی نظر آتی ہے۔

حالانکہ اس عمارت کی دیکھ بھال کی ذمہ داری حسین آباد ٹرسٹ کی ہے لیکن آج بھی متعدد کاوشوں کے بعد بھی اس عمارت کو مکمل نہیں کیا جاسکا۔ ویسے تو

اس عمارت کا نام ستکھنڈا ہے جس کا مطلب ساتھ کھنڈوں (منزل) والی عمارت ہوتا ہے لیکن یہ عمارت صرف چار کھنڈوں (منزل) تک ہی تعمیر کی جاسکی۔

پرانے لکھنؤ کا باڑا امام باڑہ، چھوٹا امام باڑا اور گھنٹہ گھر کے نزدیک واقع یہ ادھوری عمارت یونان اور اسلامی فن تعمیر کا بے جوڑ نمونہ ہے۔

اس عمارت کے در و دیوار اسلامی فن تعمیر کے طرز پر بنائے گئے ہیں جبکہ عمارت کے باہری حصے کو یونانی طرز پر تعمیر کیا گیا ہے۔

آج بھی لوگ اس ہوادار عمارت کو دیکھ کر یہ نہیں سمجھ پاتے ہیں کہ اس عمارت کو تعمیر کروانے کا مقصد کیا تھا۔

ویسے تو بھیڑ بھاڑ والے لکھنؤ کے حسین آباد علاقے کے عین درمیان میں یہ عمارت واقع ہے لیکن اب یہ عمارت بالکل ویران نظر آتی ہے۔

اس کے در و دیوار آج بھی اپنی بدحالی پر آںسو بہا رہے ہیں، بہتر طور پر اس کی دیکھ بھال نہ ہونے کے سبب اس عمارت کے حصوں سے پلاسٹر بھی جھڑ چکا ہے۔

حالانکہ اس عمارت میں ہر برس ہلال کمیٹی کی جانب سے عید اور محرم کا چاند دیکھنے کا انتظام کیا جاتا ہے۔ لیکن اس کی تشنہ تکمیل کی باتیں بھی خوب کی جاتی ہیں۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.