شیخ عبداللہ پاپا میاں کی پیدائش جون 1874 اور آپ کی وفات مارچ 1965 میں ہوئی۔ شیخ عبداللہ ایک بہت ہی عظیم شخصیت گزرے ہیں، انہوں نے خواتین کی تعلیم کے لیے بہت نمایاں کام انجام دیے ہیں۔
شیخ عبداللہ نے ضلع علی گڑھ میں پہلا ادارہ 1906 میں اپر فورٹ علاقے میں بالائے قلعہ کے نام سے قایم کیا۔ شیخ عبداللہ نے 1891 میں محمڈن اینگلو اورینٹل (ایم اے او) کالج میں داخلہ لیا۔ 1895 میں بی اے اور 1899 میں ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی۔
وہ ویمنس کالج کے بانی اور یونیورسٹی کے خزانچی بھی رہے۔ شیخ عبداللہ کے نام سے طالبات کے لیے ایک عبداللہ ہال بھی موجود ہے۔
اے ایم یو ویمنس کالج کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر محمد فرقان نے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ کچھ عرصہ سرسید احمد خان کے ساتھ اور کچھ سر سید کے بعد میں اس کالج کی خدمات انجام دی اور جب اے ایم یو کی تحریک شروع ہوئی سرسید کے انتقال کے بعد تو اس تحریک میں بھی شیخ عبداللہ نے نمایاں کام انجام دیا اور جب یونیورسٹی قائم ہوئی تب بھی ان کا بہت اہم رول تھا۔
![shiekh abdullah papa miyan](https://etvbharatimages.akamaized.net/etvbharat/prod-images/up-ali-special-story-on-sheikh-abdullah-02-pck-7206466_26112020200744_2611f_03331_378.jpg)
1923 سے 1929۔30 تک شیخ عبداللہ یونیورسٹی کے خزانچی رہے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے خزانچی رہتے ہوئے، انہوں نے فنڈ کی حصولیابی کے لئے بہت زبردست رول ادا کیا۔ 1898 میں شیخ عبداللہ نے محمڈن اینگلو اورینٹل (ایم اے او) کالج میں داخلہ لیا تو ان کا اور سرسید احمد خان کا گہرا رشتہ قائم ہوا۔
سرسید نے ایک طرح سے ان کو اپنی سرپرستی میں رکھا اور 1898 تک جب سرسید کا انتقال ہوا، اس وقت تک شیخ عبداللہ کی تربیت ہو رہی تھی۔ سرسید احمد خاں نے شیخ عبداللہ کو ناصرف مینیجمنٹ کیسے کیا جائے، میٹنگ کیسے کی جاۓ، اجلاس کیسے کیا جائے یہاں تک کہ مضامین کیسے لکھنا ہے، یہ تمام چیزی ان کو اپنی سر پرستی میں سیکھنے کا موقع فراہم کیا۔
شیخ عبداللہ نے علی گڑھ میں پہلا ادارہ 1906 میں قائم کیا۔ علی گڑھ شہر کے اپر فورٹ علاقے میں بالائے قلعہ کے نام سے، 1914 میں وہ ادارہ شفٹ ہوگیا میرس روڈ پر جہاں آج ویمنس کالج، اسکول اور عبداللہ ہال موجود ہے۔
![shiekh abdullah papa miyan](https://etvbharatimages.akamaized.net/etvbharat/prod-images/up-ali-special-story-on-sheikh-abdullah-02-pck-7206466_26112020200749_2611f_03331_834.jpg)
پہلے یہ ادارہ پرائمری سطح پر تھا، پھر ترقی کر کے وہ ہائی سکول، انٹر میڈیٹ اور پھر کالج قائم ہوا۔ جو آج خواتین کی تعلیم (گریجویشن) کے لیے اتنا عظیم ادارہ بن گیا ہے کہ آج یہاں تقریباً 1000 سے بھی زیادہ لڑکیاں ہر سال آتی ہیں جس میں 50 سے زیادہ بیرونی ممالک کی بھی ہوتی ہیں جو یہاں تعلیم حاصل کرتی ہے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہاں شیخ عبداللہ کے نام سے عبداللہ ہال بھی ہے اس ہال میں طالبہ کی تربیت کا بھی بہترین انتظام ہے۔
مزید پڑھیں:
اے ایم یو میں یوم آئین منایا گیا
ڈاکٹر محمد فرقان نے مزید بتایا کہ میری ایک کتاب سرسید اکیڈمی نے شائع کی ہے، یہ ایک مونوگراف ہے جس میں مختصر کہنا چاہیے ان کی تاریخی، کامیابی، کارکردگی کو پیش کیا گیا ہے۔ اے ایم یو کے قیام کا جو سو سالہ جشن منایا جارہا ہے اس کے تحت اس کا اجراء وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے کچھ روز قبل کیا۔