اب تو جاتے ہیں میکدے سے میر
پھر ملیں گے اگر خدا لایا
سات (7) اکتوبر 1936 کو منشی پریم چند نے اپنے کچھ ملاقاتیوں سے مذکورہ شعر کہا تھا، کسی کو پتہ نہیں تھا کہ آنے والے دنوں میں منشی جی اس دنیا کو الوداع کہہ دیں گے۔
بتایا جاتا ہے کہ منشی پریم چند کا جب انتقال ہوا تو عام لوگوں کے انتقال کی طرح عوام کو بتایا گیا کہ استاد منشی پریم چند دنیا میں نہیں رہے۔ کسی کو کیا پتہ تھا کہ اردو و ہندی زبان کے عظیم افسانہ و ناول نگار نے دنیا کو اتنا جلدی الوداع کہہ دیا ہے۔
منشی پریم چند کے آبائی گاؤں لمہی میں تعمیر ان کے گھر کے رجسٹر میں متعدد ممالک کے لوگوں کا نام درج ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ منشی پریم چند نہ صرف بھارت میں مقبول ہیں بلکہ غیر ملکوں میں بھی منشی پریم چند کے شیدائی ہیں۔
منشی پریم چند کی پیدائش اترپردیش کے ضلع بنارس کے لمہی گاؤں میں 31 جولائی 1880 میں ہوئی اور انتقال 8 اکتوبر 1936 کو ہوا۔ والد کا نام منشی عجائب لال تھا جو کہ ایک ڈاک خانہ میں کلرک تھے۔
منشی پریم چند نے تقریبا سات آٹھ برس فارسی پڑھنے کے بعد انگریزی تعلیم کی شروعات کی۔ پندرہ برس کی عمر میں شادی ہو گئی ایک برس بعد والد کا انتقال ہو گیا۔ ان کی شریک حیات کا نام شیوا رانی دیوی ہے۔
والد کے انتقال کے بعد گھر کی ذمہ داری منشی جی پر آگئی، فکر معاش نے زیادہ پریشان کیا تو بچوں کو ٹیوشن پڑھانا شروع کر دیا۔ میٹرک پاس کرنے کے بعد محکمہ تعلیم میں ملازم ہوگئے۔
منشی پریم چند بنیادی طور پر اردو زبان میں لکھا کرتے تھے بعد میں ان کی تصنیفات ہندی اور انگریزی میں بھی منظر عام پر آئیں۔ انہوں نے ہمیشہ مزدوروں کی حمایت میں لکھا اور طبقاتی نظام کے پہلوؤں کو اجاگر کرنے کی کوشش کی۔
منشی پریم چند ایک بہترین ناول نگار و افسانہ نگار تھے۔ اردو، ہندی اور انگریزی زبان پر وہ کامل دسترس رکھتے تھے۔ ان کی نمایاں کتاب گئودان، بازار حسن، میدان عمل، شطرنج کے کھلاڑی وغیرہ ہیں۔
بنارس ہندو یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے صدر پروفیسر آفتاب احمد آفاقی نے منشی پریم چند کے حوالے سے بتایا کہ انہوں نے اپنی قلم کے ذریعے نہ صرف انگریزوں کے دانت کھٹے کیے تھے بلکہ ہندوستان کے دیہی علاقوں کی زندگی کو بخوبی اجاگر کیا ہے۔ پریم چند نے اپنی قلمی طاقت سے ہندوستان کی روح میں بسے غریب پسماندہ مزدور آدیواسی کی آواز کو نہ صرف بے باک طریقے سے لکھا بلکہ کردار میں پیوست کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ دور میں منشی پریم چند کی تصنیفات کی کی اہمیت اور بھی بڑھ رہی ہے، جہاں ذات پات، مذہب اور مزدوروں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جارہا ہے۔ اس دور میں منشی جی کی تصنیفات کافی اہمیت کی حامل ہیں۔