ETV Bharat / state

پسماندہ طبقوں کی آواز تھے منشی پریم چند: پروفیسر آفاقی

author img

By

Published : Oct 8, 2020, 6:04 PM IST

منشی پریم چند کی 84 ویں برسی منائی جا رہی ہے۔ کورونا وائرس کے اثر سے آن لائن انہیں خراج عقیدت پیش کیا جا رہا ہے۔ ادبی دنیا میں وہ پریم چند کے نام سے مشہور ہیں لیکن ان کا اصل نام دھنپت رائے ہے۔

Special Story On Prem Chand Death Anniversary
پسماندہ طبقوں کی آواز تھے منشی پریم چند: پروفیسر آفاقی

اب تو جاتے ہیں میکدے سے میر

پھر ملیں گے اگر خدا لایا

سات (7) اکتوبر 1936 کو منشی پریم چند نے اپنے کچھ ملاقاتیوں سے مذکورہ شعر کہا تھا، کسی کو پتہ نہیں تھا کہ آنے والے دنوں میں منشی جی اس دنیا کو الوداع کہہ دیں گے۔

پسماندہ طبقوں کی آواز تھے منشی پریم چند: پروفیسر آفاقی

بتایا جاتا ہے کہ منشی پریم چند کا جب انتقال ہوا تو عام لوگوں کے انتقال کی طرح عوام کو بتایا گیا کہ استاد منشی پریم چند دنیا میں نہیں رہے۔ کسی کو کیا پتہ تھا کہ اردو و ہندی زبان کے عظیم افسانہ و ناول نگار نے دنیا کو اتنا جلدی الوداع کہہ دیا ہے۔

منشی پریم چند کے آبائی گاؤں لمہی میں تعمیر ان کے گھر کے رجسٹر میں متعدد ممالک کے لوگوں کا نام درج ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ منشی پریم چند نہ صرف بھارت میں مقبول ہیں بلکہ غیر ملکوں میں بھی منشی پریم چند کے شیدائی ہیں۔

Special Story On Prem Chand Death Anniversary
پریم چند سے جڑے نادر دستاویز

منشی پریم چند کی پیدائش اترپردیش کے ضلع بنارس کے لمہی گاؤں میں 31 جولائی 1880 میں ہوئی اور انتقال 8 اکتوبر 1936 کو ہوا۔ والد کا نام منشی عجائب لال تھا جو کہ ایک ڈاک خانہ میں کلرک تھے۔

منشی پریم چند نے تقریبا سات آٹھ برس فارسی پڑھنے کے بعد انگریزی تعلیم کی شروعات کی۔ پندرہ برس کی عمر میں شادی ہو گئی ایک برس بعد والد کا انتقال ہو گیا۔ ان کی شریک حیات کا نام شیوا رانی دیوی ہے۔

Special Story On Prem Chand Death Anniversary
ادیبوں سے متعلق ڈاک ٹکٹ، جن میں پریم چند بھی شامل ہیں۔

والد کے انتقال کے بعد گھر کی ذمہ داری منشی جی پر آگئی، فکر معاش نے زیادہ پریشان کیا تو بچوں کو ٹیوشن پڑھانا شروع کر دیا۔ میٹرک پاس کرنے کے بعد محکمہ تعلیم میں ملازم ہوگئے۔

Special Story On Prem Chand Death Anniversary
بنارس میں واقع لمہی گاؤں میں پریم چند سے جڑی یادیں اور ان کا گھر آج بھی محفوذ ہے۔

منشی پریم چند بنیادی طور پر اردو زبان میں لکھا کرتے تھے بعد میں ان کی تصنیفات ہندی اور انگریزی میں بھی منظر عام پر آئیں۔ انہوں نے ہمیشہ مزدوروں کی حمایت میں لکھا اور طبقاتی نظام کے پہلوؤں کو اجاگر کرنے کی کوشش کی۔

Special Story On Prem Chand Death Anniversary
پریم چند کی تحریر

منشی پریم چند ایک بہترین ناول نگار و افسانہ نگار تھے۔ اردو، ہندی اور انگریزی زبان پر وہ کامل دسترس رکھتے تھے۔ ان کی نمایاں کتاب گئودان، بازار حسن، میدان عمل، شطرنج کے کھلاڑی وغیرہ ہیں۔

Special Story On Prem Chand Death Anniversary
لمہی پریم چند میوزیم میں ان کی کچھ کتابیں اور دستاویز

بنارس ہندو یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے صدر پروفیسر آفتاب احمد آفاقی نے منشی پریم چند کے حوالے سے بتایا کہ انہوں نے اپنی قلم کے ذریعے نہ صرف انگریزوں کے دانت کھٹے کیے تھے بلکہ ہندوستان کے دیہی علاقوں کی زندگی کو بخوبی اجاگر کیا ہے۔ پریم چند نے اپنی قلمی طاقت سے ہندوستان کی روح میں بسے غریب پسماندہ مزدور آدیواسی کی آواز کو نہ صرف بے باک طریقے سے لکھا بلکہ کردار میں پیوست کیا ہے۔

Special Story On Prem Chand Death Anniversary
پریم چنند کا ریڈیو

انہوں نے کہا کہ موجودہ دور میں منشی پریم چند کی تصنیفات کی کی اہمیت اور بھی بڑھ رہی ہے، جہاں ذات پات، مذہب اور مزدوروں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جارہا ہے۔ اس دور میں منشی جی کی تصنیفات کافی اہمیت کی حامل ہیں۔

اب تو جاتے ہیں میکدے سے میر

پھر ملیں گے اگر خدا لایا

سات (7) اکتوبر 1936 کو منشی پریم چند نے اپنے کچھ ملاقاتیوں سے مذکورہ شعر کہا تھا، کسی کو پتہ نہیں تھا کہ آنے والے دنوں میں منشی جی اس دنیا کو الوداع کہہ دیں گے۔

پسماندہ طبقوں کی آواز تھے منشی پریم چند: پروفیسر آفاقی

بتایا جاتا ہے کہ منشی پریم چند کا جب انتقال ہوا تو عام لوگوں کے انتقال کی طرح عوام کو بتایا گیا کہ استاد منشی پریم چند دنیا میں نہیں رہے۔ کسی کو کیا پتہ تھا کہ اردو و ہندی زبان کے عظیم افسانہ و ناول نگار نے دنیا کو اتنا جلدی الوداع کہہ دیا ہے۔

منشی پریم چند کے آبائی گاؤں لمہی میں تعمیر ان کے گھر کے رجسٹر میں متعدد ممالک کے لوگوں کا نام درج ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ منشی پریم چند نہ صرف بھارت میں مقبول ہیں بلکہ غیر ملکوں میں بھی منشی پریم چند کے شیدائی ہیں۔

Special Story On Prem Chand Death Anniversary
پریم چند سے جڑے نادر دستاویز

منشی پریم چند کی پیدائش اترپردیش کے ضلع بنارس کے لمہی گاؤں میں 31 جولائی 1880 میں ہوئی اور انتقال 8 اکتوبر 1936 کو ہوا۔ والد کا نام منشی عجائب لال تھا جو کہ ایک ڈاک خانہ میں کلرک تھے۔

منشی پریم چند نے تقریبا سات آٹھ برس فارسی پڑھنے کے بعد انگریزی تعلیم کی شروعات کی۔ پندرہ برس کی عمر میں شادی ہو گئی ایک برس بعد والد کا انتقال ہو گیا۔ ان کی شریک حیات کا نام شیوا رانی دیوی ہے۔

Special Story On Prem Chand Death Anniversary
ادیبوں سے متعلق ڈاک ٹکٹ، جن میں پریم چند بھی شامل ہیں۔

والد کے انتقال کے بعد گھر کی ذمہ داری منشی جی پر آگئی، فکر معاش نے زیادہ پریشان کیا تو بچوں کو ٹیوشن پڑھانا شروع کر دیا۔ میٹرک پاس کرنے کے بعد محکمہ تعلیم میں ملازم ہوگئے۔

Special Story On Prem Chand Death Anniversary
بنارس میں واقع لمہی گاؤں میں پریم چند سے جڑی یادیں اور ان کا گھر آج بھی محفوذ ہے۔

منشی پریم چند بنیادی طور پر اردو زبان میں لکھا کرتے تھے بعد میں ان کی تصنیفات ہندی اور انگریزی میں بھی منظر عام پر آئیں۔ انہوں نے ہمیشہ مزدوروں کی حمایت میں لکھا اور طبقاتی نظام کے پہلوؤں کو اجاگر کرنے کی کوشش کی۔

Special Story On Prem Chand Death Anniversary
پریم چند کی تحریر

منشی پریم چند ایک بہترین ناول نگار و افسانہ نگار تھے۔ اردو، ہندی اور انگریزی زبان پر وہ کامل دسترس رکھتے تھے۔ ان کی نمایاں کتاب گئودان، بازار حسن، میدان عمل، شطرنج کے کھلاڑی وغیرہ ہیں۔

Special Story On Prem Chand Death Anniversary
لمہی پریم چند میوزیم میں ان کی کچھ کتابیں اور دستاویز

بنارس ہندو یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے صدر پروفیسر آفتاب احمد آفاقی نے منشی پریم چند کے حوالے سے بتایا کہ انہوں نے اپنی قلم کے ذریعے نہ صرف انگریزوں کے دانت کھٹے کیے تھے بلکہ ہندوستان کے دیہی علاقوں کی زندگی کو بخوبی اجاگر کیا ہے۔ پریم چند نے اپنی قلمی طاقت سے ہندوستان کی روح میں بسے غریب پسماندہ مزدور آدیواسی کی آواز کو نہ صرف بے باک طریقے سے لکھا بلکہ کردار میں پیوست کیا ہے۔

Special Story On Prem Chand Death Anniversary
پریم چنند کا ریڈیو

انہوں نے کہا کہ موجودہ دور میں منشی پریم چند کی تصنیفات کی کی اہمیت اور بھی بڑھ رہی ہے، جہاں ذات پات، مذہب اور مزدوروں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جارہا ہے۔ اس دور میں منشی جی کی تصنیفات کافی اہمیت کی حامل ہیں۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.